ایٹمی معاہدہ، واشنگٹن میں ٹرمپ اور میکرون کے مذاکرات کا اصلی محور
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے دورۂ واشنگٹن کے موقع پر اپنے امریکی ہم منصب سے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں کئے گئے امریکی وعدوں کی پابندی کریں-
میکرون نے ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے اور ٹرمپ کے ذریعے اس کو ختم کئےجانے کی کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نامہ نگاروں کے اجتماع میں کہا کہ ایران کے ساتھ ہوئے ایٹمی معاہدے کا کوئی متبادل نہیں بن سکتا اور جب تک اس سے بہتر کوئی متبادل نہیں مل جاتا امریکا کو چاہئے کہ وہ اس معاہدے پر باقی رہے۔
میکرون نے اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں امریکی صدر ٹرمپ سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ مئی میں پابندیوں کو معطل رکھنے کی مدت کے خاتمے پر آپ کی ترجیح کیا ہوگی؟ اگر چاہتے ہیں کہ سب سے جنگ کریں تو پھر چین سے تجارتی جنگ، یورپ کے مقابلے میں تجارتی جنگ ، شام کے خلاف جنگ ، اور ایران کے خلاف جنگ کیجئے لیکن یہ بات مان لیجئے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ البتہ ہم آپ کے اتحادی ہیں-
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مئی کے مہینے تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران سے متعلق جوہری پابندیوں کی معطلی کی پھر سے توثیق کرنے کے لئے فیصلہ کرنا ہے جبکہ یورپی ممالک بھی ایران کے طے شدہ جوہری معاہدے کے تحفظ کے لئے کوشش کر رہے ہیں-
یورپی میڈیا ، امانوئل میکرون کے تین روزہ دورۂ واشنگٹن کو جو آج پیر کے روز سے شروع ہوا ہے اور اسی طرح جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے بھی آئندہ دنوں میں انجام پانے والے دورے کو، امریکی حکومت کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی روک تھام کے لئے یورپی یونین کی آخری کوشش قرار دے رہے ہیں- ٹرمپ نے بارہ جنوری کو ایران کے خلاف جوہری پابندیوں کو معطل کرنے کی ایک بار پھر توثیق کرنے کے وقت دھمکی دی تھی کہ وہ ایک سو بیس دن بعد جوہری پابندیوں کی معطلی کی مدت میں توسیع نہیں کریں گے مگر یہ کہ یورپ ایٹمی سمجھوتے میں تبدیلی کے لئے واشنگٹن کے مطالبے کو تسلیم کرے۔ ٹرمپ نے ایٹمی معاہدے میں باقی رہنے کے لئے تین شرطوں، ایران کے میزائل پروگرام، ایران کی تمام سائٹوں منجملہ فوجی سائٹوں تک دسترسی اور ایٹمی معاہدے کے ٹائم شیڈول میں تبدیلی پر، کہ جسے وہ ایٹمی معاہدے کا زوال بتا رہے ہیں، مذاکرات کرنے کا اعلان کیا ہے-
ایٹمی معاہدے میں تبدیلی کے تعلق سے یورپی یونین کو دی گئی مہلت میں میں تقریبا تین ہفتے باقی بچے ہیں تاہم ابھی تک کوئی ایسے آثار نظر آ رہے ہیں کہ جرمنی ، فرانس اور برطانیہ ، ایٹمی مسئلے میں ٹرمپ کی توسیع پسندی کے مقابلے میں تسلیم ہوجائیں گے- البتہ گذشتہ مہینوں کے دوران ان تینوں ملکوں کے سربراہوں خاص طور پر فرانسیسی صدر امانوئل میکرون نے ایران کے علاقائی اور میزائیلی پروگراموں کے خطرناک ہونے پر مبنی بیانات دیئے ہیں تاکہ امریکہ کی خوشنودی حاصل کریں اس کے باجود انسانی حقوق اور میزائل کے مسئلے میں ایران کے خلاف یورپی یونین کی نئی پابندیوں کی منظوری کے لئے امریکہ کی امیدوں پر اس یونین کے بعض ملکوں کی مخالفتوں کے باعث پانی پھیر گیا ہے-
اس وقت بھی میکرون نے واشنگٹن کے دورے سے قبل صراحتا اعلان کیا ہے کہ ایٹمی معاہدے کے تعلق سے کوئی دوسرا منصوبہ درکار نہیں ہے- بالفاظ دیگر فرانسیسی صدر نے ایٹمی معاہدے کے متن میں کسی قسم کی تبدیلی یا اس سمجھوتے سے امریکہ کے نکلنے کی صورت میں اس کا ساتھ دینے کی کسی بھی درخواست کو مسترد کردیا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ انجیلا مرکل بھی اپنے دورۂ واشنگٹن میں امریکی صدر کے سامنے ایسا ہی موقف اختیار کریں گی وہ بھی ایسے میں کہ جب برطانوی وزیر اعظم تھریسیا مے بھی دو دیگر یورپی ملکوں کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے لئے ہم آواز ہوگئی ہیں- بہرحال ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ جو گیند ٹرمپ نے گذشتہ جنوری کے مہینے میں یورپی یونین کے پالے میں پھینکا تھا وہ اس وقت امریکیوں کی زمین میں واپس جا رہا ہے اور ٹرمپ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر مبنی ایک بین الاقوامی معاہدے میں باقی رہنے یا نکل جانے کا فیصلہ اکیلے ہی کریں-