ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکی سناریو کے خلاف ایران کی آمادگی
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکہ کے ساتھ یورپی ملکوں کے تبادلۂ خیال اور ایٹمی سمجھوتے میں باقی رہنے کے تعلق سے امریکہ کو راضی کرنے کے بارے میں کہا کہ ایٹمی معاہدے میں ایک جملہ اضافہ یا کم نہیں ہوگا-
بدھ کے روز صدرمملکت حسن روحانی نے شمال مغربی ایران کے صوبے تبریز کے اپنے دورے کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر یورپ چاہتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ ایٹمی معاہدے میں باقی رہیں تو اس کی قیمت خود یورپی ممالک ادا کریں اور انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی وہ ملت ایران کے جیب سے امریکی صدر کو راضی کریں۔ ایران اسی وقت تک ایٹمی معاہدے میں باقی رہے گا کہ جب تک اس میں ایرانی قوم کے مفادات کی ضمانت دی جائے- انہوں نے کہا کہ ایٹمی معاہدے میں ایک جملے کا بھی نہ تو اضافہ ہو گا اور نہ ہی کوئی جملہ اس میں سے کم کیا جائے گا-
ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے کوئی فیصلہ کرنے کی تاریخ بارہ مئی کا وقت قریب آنے کے ساتھ ہی ایٹمی معاہدے میں باقی رہنےکی ترغیب دلانے کے مقصد سے ٹرمپ اور امریکی قانون سازوں کے ساتھ یورپی ملکوں کے سربراہوں کا تبادلۂ خیال جاری ہے۔ اسی دائرے میں فرانسیسی صدر امانوئل میکرون نے گذشتہ تین دنوں کے دوران واشنگٹن میں ٹرمپ کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل بھی جمعے کو واشنگٹن کا دورہ کریں گی اور وہ ایٹمی معاہدے میں باقی رہنے کے بارے میں ٹرمپ سے بات چیت کریں گی- ایٹمی معاہدے کے فریق یورپی ممالک ، ایران کے موجودہ ایٹمی معاہدے کی حفاظت پر تاکید کر رہے ہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایٹمی معاہدہ اسی حالت میں باقی رہا تو وہ اس کے بارے میں کوئی نیا فیصلہ کریں گے۔
امریکی صدر کے غیر متوقع اقدامات کے باوجود ، ایٹمی معاہدے کے تعلق سے ٹرمپ کے رویوں کے بارے میں مختلف باتیں کہی جا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ٹرمپ ممکن ہے کہ ایران کی جوہری پابندیوں کو معطل کرنے کی ایک بار پھر توثیق نہ کریں تاہم ایٹمی معاہدے میں باقی رہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ممکن ہے کہ ٹرمپ ایٹمی معاہدے سے نکل جائیں تاہم ماہرین اس کا امکان بہت کم پیش کر رہے ہیں- لیکن جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں فرانسیسی صدر نے بدھ کو تقریر کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے مسئلے پر ایک بارپھر توجہ دی ہے۔ فرانس کے صدر امانوئل میکرون نے امریکی اسٹوڈنٹس کے اجتماع میں کہا کہ انہیں صحیح طور پر نہیں معلوم کہ امریکی صدر کیا فیصلہ کریں گے لیکن امکان ہے کہ وہ اندرونی مسائل کے سبب ایران کے ایٹمی معاہدے سے نکل جائیں-
امریکہ کی جانب سے ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں مختلف سناریو کے علاوہ وہ چیز جو اہمیت کی حامل ہے ، اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلی رتبہ حکام کا ٹھوس موقف ہے کہ جنہوں نے بارہا کہا ہے کہ اگر امریکہ ایٹمی معاہدے سے نکلے گا تو اسے بہت زیادہ نقصان کا متحمل ہونا پڑے گا- چنانچہ صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے کل پریس کانفرنس میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران نے ایٹمی معاہدے کے خاتمے کی صورت میں اپنے لئے نیا اور جامع پروگرام تیار کر رکھا ہے کہا کہ امریکی صدر کو یہ جان لینا چاہئے کہ ایٹمی معاہدے کی ناکامی کی صورت میں ایران پوری برق رفتاری کے ساتھ اپنی پرامن ایٹمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دے گا-
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایٹمی معاہدے میں کوئی بھی تبدیلی قابل قبول نہیں ہے، کہا کہ جو ممالک ایٹمی معاہدے میں تبدیلی چاہتے ہیں انہیں جان لینا چاہئے کہ یا تو وہ ایٹمی معاہدے کو موجودہ صورت میں قبول کریں یا پھر پورے معاہدے کو خیر باد کہہ دیں- اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام نے بارہا یہ بھی کہا کہ ایران میزائلی صلاحیت اور اپنے علاقائی اقتدار اور موثر کردار کے بارے میں بھی کوئی سودا نہیں کرے گا اور ایٹمی معاہدے سے متعلق امریکہ کے ہر قسم کے سناریو کے مقابلے میں جواب دینے کے لئے تیار ہے۔
اسی تناظر میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے منگل کو امریکی نیوز ایجنسی ایسوشی ایٹیڈ پریس کے ساتھ گفتگو میں ایٹمی معاہدے کے بارے میں کہا کہ اگر امریکا ایٹمی معاہدے سے باہر نکلتا ہے تو تہران بھی معاہدے سے نکل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی معاہدے سے امریکا کے نکلنے کی صورت میں ایران بھی معاہدے کی شقوں کے مطابق اس بین الاقوامی معاہدے پر کاربند نہیں رہے گا اور سمجھوتے کے مطابق وہ یورینیم کی افزودگی کا عمل معاہدے سے پہلے کی طرح پوری تیز رفتاری سے دوبارہ شروع کر دے گا-