Apr ۲۸, ۲۰۱۸ ۱۶:۱۶ Asia/Tehran
  • امریکہ، نیٹو میں  بھی تنہائی کا شکار

نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے میں امریکی صدر کے نظریے کے برخلاف اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ نیٹو ایٹمی سمجھوتے کی حمایت کرتا ہے

نیٹو کے سربراہ ینس اسٹولنٹنبرگ نے کہا کہ علاقائی مسائل اور ایران کا میزائلی پروگرام مشترکہ جامع ایکشن پلان کے دائرے میں نہیں آتا- نیٹو کے سربراہ نے بریسلزمیں نیٹو کے وزرائےخارجہ کے اجلاس کے بعد ایک دیگر معاہدے کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کی تکمیل کی ضرورت کے بارے میں صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نیٹو صرف ایٹمی سمجھوتے پرعمل درآمد کی حمایت کرتا ہے-

نیٹو ، یورپ میں امریکہ کے فوجی بازو کی حیثیت سے دنیا میں سیکورٹی موضوعات میں واشنگٹن کی پالیسیوں کے ساتھ بہت قریبی رابطہ رکھتا ہے اس کے باوجود اس ادارے نے کہ جس کا اصلی بجٹ امریکہ فراہم کرتا ہے ، ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں امریکی صدر کے موقف کو مسترد کردیا ہے- ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر بارہ مئی تک ایٹمی سمجھوتے میں اصلاح یا ایران کی علاقائی اور میزائلی پالیسیوں میں تبدیلی کا ان کا مطالبہ پورا نہیں ہوتا تو امریکہ دوہزارپندرہ میں ہونے والے ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکل جائے گا- ایک ایسے عالمی سمجھوتہ کو کہ جس کی بقا کی ضمانت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دی ہے، خطرات سے دوچار کرنے سے دنیا میں تشویش پیدا ہوگئی ہے- یہ تشویش صرف خودمختارممالک یا امریکہ کے حریف ملکوں تک محدود نہیں ہے بلکہ واشنگٹن کے اہم سیاسی و فوجی اتحادی بھی ایٹمی سمجھوتے سے نکلنے کے بدترین نتائج کے سلسلے میں خبردار کرچکے ہیں- اس سلسلے میں نیٹو کے جنرل سیکریٹری کا موقف اہمیت کا حامل ہے-

البتہ اسٹولٹنبرگ نے نیٹو کے اکثر رکن ملکوں کا موقف بیان کیا ہے-  نیٹو کے انتیس رکن ممالک میں صرف امریکی حکومت ایٹمی سمجھوتے کو لاحاصل اوربےکار کہتی ہے- جبکہ یہ معاہدہ ، نیٹو کے چار رکن ممالک امریکہ برطانیہ فرانس و جرمنی اور ایران ، روس و چین کے درمیان برسوں کے طویل مذاکرات کے بعد نتیجے تک پہنچا ہے اور ایک سوپچاس صفحات پرمشتمل ہے- اس کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ایک قرارداد کے ذریعے اس معاہدے کی توثیق کی-

ایسے عالم میں جب ایران کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے پر مکمل عمل درآمد کو شروع ہوئے دوسال گذر رہے ہیں امریکی صدر ٹرمپ اس موضوع پر دنیا میں نیا بحران کھڑا کرنا چاہتے ہیں- ایران کے اعلی حکام نے کھل کراعلان کیا ہے کہ اگر امریکہ ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلے گا تو ایران بھی اپنی ایٹمی سرگرمیاں دوبارہ نہایت تیزی سے شروع کردے گا- اس موقف نے یورپی یونین اور نیٹو جیسے اداروں کے لئے کہ جو واشنگٹن کے اصلی ترین سیاسی ، اقتصادی و فوجی اتحادی ہیں ، خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے- امریکہ میں جنگ مخالف ایک سرگرم کارکن مڈیا بنجامین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ ٹرمپ کے دعوے کے مطابق ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلے گا تو ممکن ہے کہ ہم مشرق وسطی میں ایک بار پھر ایک المناک جنگ کی راہ پر چل پڑیں اوراسی وجہ سے یورپ کی توازن پیدا کرنے والی طاقتیں ، امریکی کانگریس اور اس ملک کی رائےعامہ اس خطرے کو روکنے میں مرکزی کردار ادا کرسکتی ہے-

 اس کے باوجود ابھی اس بات کی کوئی علامت نظر نہیں آرہی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ، ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کے مستقبل کے سلسلے میں نیٹو کے رکن ممالک اور عالمی برادری کے مطالبات کا احترام کریں گے- اس موضوع سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ کی نمائندگی میں امریکہ کا قوم پرست گروہ ، نیٹو جیسے ادارے کے موقف پر بھی توجہ نہیں دے رہے ہیں-

ٹیگس