ایٹمی معاہدہ منسوخ کئے جانے کے نتائج کے بارے میں روس کا انتباہ
روس کی حکومت نے ایک بیان میں اس امر پر تاکید کرتے ہوئے کہ ایٹمی معاہدہ تمام فریقوں کے مفادات کی تکمیل کے لئے متوازن میکانزم ہے، خبردارکیا ہے کہ اس معاہدے کی منسوخی نقصان دہ ہوگی۔
اس بیان کے مطابق ایٹمی معاہدے کو درھم برھم کرنے سے بین الاقوامی سلامتی اور ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ معاہدے کو نقصان پہنچے گا- اسی طرح کسی دلیل اور سبب کے بغیر اور عالمی برادری کے ارادے کے برخلاف ایٹمی معاہدے کی منسوخی سے، جزیرہ نمائے کوریا کے ایٹمی مسئلے کے حل کی کوششیں اثر انداز ہوں گی۔ ایٹمی معاہدے سے نکلنے اور اس سلسلے میں بہانہ تراشی کے لئے امریکی کوششوں کے پیش نظر،ایٹمی معاہدے کے تحفظ پر روس نے ایک بارپھر تاکید کی ہے۔ ماسکو کے نقطہ نگاہ سے ایٹمی معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جو مد نظر اہداف کو ضمانت فراہم کرنے والا ہے اور امریکہ کی جانب سے اسے منسوخ کرنے سے عالمی امن و سلامتی کے لئے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
درحقیقت روسیوں کا خیال ہے کہ جب مشترکہ جامع ایکشن پلان جیسے معاہدے کو آسانی کے ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روند سکتے ہیں تو پھر اس کے بعد اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ شمالی کوریا کے ساتھ ایٹمی مذاکرات جیسے موارد میں امریکہ کسی عہد و پیمان کا پابند ہوگا۔ ایران نے ایٹمی معاہدے کے دائرے میں مکمل طور پر اپنے وعدوں پر عمل کیا ہے اور جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے اور گروپ پانچ جمع ایک میں شامل یورپ کے فریق ملکوں نے بھی اس کی تائید و تصدیق کی ہے۔
اس مسئلے سےعالمی ماحول میں بے اعتمادی اور عدم استحکام پیدا ہوگا اور دنیا کو مزید افراتفری کی جانب ترغیب دلائے گا۔ یہی مسائل اس بات کا باعث بنے ہیں کہ روس نے ایٹمی معاہدے کی پابندی کرنے اور اس سے نکلنے کے منفی نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ روسی وزارت خارجہ میں ہتھیاروں کے کنٹرول اورعدم پھیلاؤ کے مسائل کے ادارے کے سربراہ ولادیمیر یرماکف نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے سے واشنگٹن کی حیثیت اور ساکھ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، کہا ہے کہ یہ مسئلہ ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور ہم اس پر عملدرآمد جاری رکھیں گے۔
تین یورپی ممالک جو گروپ پانچ جمع ایک کے رکن ہیں یعنی جرمنی ، فرانس اور برطانیہ نے اس وقت ایٹمی معاہدے میں کمیاں اور خامیاں برطرف کئے جانے کا دعوی کرتے ہوئے کوشش کی ہے کہ امریکہ کو ایک پیکج کی پیشکش کے ذریعے، یعنی ایران کے میزائل پروگرام اور اس کی علاقائی پالیسیوں سے مقابلے کے بہانے سے ایران کے خلاف نئے اقدامات کی موافقت کرکے، ٹرمپ کو ایٹمی معاہدے میں باقی رہنے پر راضی کریں۔ یورپی ملکوں نے بھی ایک پروگرام شروع کردیا ہے تاکہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کی صورت میں ایران کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو محفوظ رکھیں۔
درحقیقت ٹرمپ بدستور اپنے ایٹمی معاہدے کے خلاف باتیں کر رہے ہیں اور انہوں نے حال ہی میں ایک بار پھر ایران کے ایٹمی معاہدے کو خطرناک بتایا ہے اور امریکہ کی سابق حکومتوں کے حکام خاص طور پر سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو مذاکرات کرنے پر ہدف تنقید بنایا ہے- واضح رہے کہ ٹرمپ تقریبا آٹھ روز کے بعد یعنی بارہ مئی کو ایٹمی معاہدے میں باقی رہنے یا اس سے نکل جانے کےبارے میں فیصلہ کرنے والے ہیں- ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کی صورت میں یہ مسئلہ نہ صرف عالمی سطح پر امریکہ کی ساکھ کے کمزور ہونے کا سبب بنے گا بلکہ اس سے عالمی معاہدوں کے دائرے میں، اپنے وعدوں پر حکومتوں کے پابند ہونے کے اہم اصول پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔