May ۰۷, ۲۰۱۸ ۱۷:۵۰ Asia/Tehran
  • لبنان کے انتخابات میں 49 فیصد سے زیادہ ووٹروں کی شرکت

لبنان کے پارلیمانی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کو انتخابات میں کامیابی ملی ہے جبکہ سعد حریری کی قیادت میں المستقبل دھڑا شکست سے دوچار ہوا ہے اور لبنانی عوام نے اپنے ملک میں سعودی عرب کی مداخلت کی بھرپور طریقے سے مخالفت کی ہے۔

لبنان کے پارلیمانی انتخآبات گذشتہ روز چھ مئی کو پانچ سال کی تاخیر سے انجام پائے۔ ان انتخابات میں پارلیمان کی 128 نشستوں کے لئے 583 نامزد امیدوار میدان میں تھے، ملک کے پانچ ریجنوں کو پندرہ انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہر حلقے کی آبادی کے لحاظ سے نشستیں مقرر کی گئی تھیں - لبنان کے وزیر داخلہ کے بقول ان انتخابات میں ووٹنگ کا تناسب 49 فیصد سے زیادہ رہا- لبنان میں انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں اور لوگ اپنے من پسند انتخابی پینل کو ووٹ دیتے ہیں اور ہر پینل کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے پارلمینٹ میں نمائندگی حاصل ہوتی ہے۔ روئٹرز نیوز ایجنسی نے ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ غیر سرکاری نتائج سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ حزب اللہ اور اس کے اتحادی گروہوں کو گذشتہ روز کے انتخابات میں کامیابی ملی ہے اور پارلیمان کی نصف سے زائد نشستیں ان کوحاصل ہوئی ہیں- حزب اللہ اور امل موومنٹ کے اتحاد ، الامل و الوفاء کے تمام امیدواروں نے کل لبنان میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔

گذشتہ روز کے انتخابات میں سعد حریری کی شکست مختلف پہلوؤں کی حامل تھی، اور المستقبل دھڑے کی نشستیں لبنان میں آئندہ بننے والی پارلیمنٹ میں کم ہوجائیں گی- المستقبل دھڑے کے آخری نتائج کے مطابق اسے بیروت اور طرابلس میں بھی مایوسی کا منھ دیکھنا پڑا ہے اور اس نے کئی نشستیں ہاتھ سے کھودی ہیں۔ دوسری جانب لبنانی پارلیمنٹ میں بعض اشخاص کا داخل ہونا ہی ایک طرح سے سعدی حریری کی شکست ہے۔ منجملہ ان میں سے میجر جنرل جمیل السید ہیں کہ جو سعد حریری کے والد، رفیق حریری کے قتل کے جرم میں جیل میں رہ چکے ہیں، لیکن کل کے انتخابات میں وہ کامیاب ہوگئے۔ لبنان کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج میں ایک اہم پیغام ، مزاحمت و استقامت کی کامیابی اور سعودی عرب کی شکست ہے۔ بلاشبہ یہ نتائج ، لبنان میں امن و سلامتی فراہم کرنے اور شام میں دہشت گردی سے مقابلے میں مزاحمتی گروہوں کے کردار کا ما حصل ہیں۔ لبنانی عوام نے مزاحمت کے حق میں ووٹ دیا ہے چنانچہ مزاحمت اور اس کے اتحادیوں کی کامیابی، خود ان کی ماضی کی پیش گوئیوں سے بھی زیادہ رہی ہے۔ دوسری جانب لبنان کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج نےثابت کردیا ہے کہ لبنان میں سعودی عرب کی پالیسیوں کی شکست ہوئی ہے اور اس ملک کے عوام اپنے ملک میں ریاض کی مداخلتوں کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ مداخلت نومبر 2017 میں اس وقت اپنے عروج کو پہنچ گئی تھی کہ جب سعودی ولیعہد نے سعد حریری کو ریاض بلا کر، پہلے سے لکھا ہوا استعفی ان کو پیش کیا اور حریری بھی اس بیان کو پڑھنے پر مجبور ہوگئے۔

بلاشبہ لبنان کے گذشتہ روز کے پارلیمانی انتخابات میں حریری اور سعودی عرب کی شکست کی ایک اہم ترین وجہ ، نومبر 2017 میں لبنان کے وزیر اعظم کے ساتھ محمد بن سلمان کے رویے سے مربوط ہے۔ عالم عرب کے مسائل کے ماہر "محمد علی مھتدی" پارلیمانی انتخابات کے نتائج اور سعودی عرب کی ناکامی کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے پیسے، اور امریکی وعدے اور وعید، لبنانی عوام کو مزاحمت سے دور نہیں کرسکے اور لبنان کے خلاف بائیکاٹ کی دھمکی کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ یہ ناکامی اس حد تک واضح تھی کہ حتی سعودی عرب کے حامی، اور حزب اللہ مخالف انتہا پسند سیاستداں، سابق وزیر انصاف اور پولیس سربراہ اشرف ریفی انتخابات میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی عرب، اشرف ریفی کو سعد حریری کی جگہ لبنان کے وزیر اعظم کی جگہ بٹھانا چاہتا تھا- آخری نکتہ یہ ہے کہ حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کے توسط سے لبنان کی زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے باوجود اس ملک کا آئندہ وزیراعظم، وہی ہوگا جس پر اس ملک کے اہل سنت اتفاق کریں گے- بالفاظ دیگر لبنان کے پارلیمانی انتخابات میں کامیاب پارٹی، اپنا وزیر اعظم متعارف نہیں کراسکے گی

 

        

ٹیگس