ایران کے ساتھ تعلقات گہرے کرنے پر روس کی تاکید
روس نے کہا ہے کہ ماسکو امریکی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے کہا ہے کہ روس شدت سے ایران کے ساتھ تعلقات کے فروغ کا عمل جاری رکھنے کا پابند ہے-
ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات گہرے کرنے کا روس کا موقف، امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ اقدام پر ردعمل ہے کہ جس نے منگل آٹھ مئی کو ایٹمی معاہدے کے عہدوپیمان پر توجہ کئے بغیر اعلان کردیا کہ وہ ایٹمی معاہدے سے نکل رہے ہیں کیوں کہ یہ معاہدہ امریکی مفادات کے حق میں نہیں ہے اور ہم ایران کے خلاف نئی اور وسیع پابندیاں عائد کریں گے۔ امریکہ اپنی یکجانبہ پالیسی کے دائرے میں اس زعم میں ہے کہ اب گروپ پانچ جمع ایک کے دیگر ممالک خاص طور پر اس کے یورپی شریک ، تہران کے خلاف واشنگٹن کے موقف کی حمایت کریں گے اور اس کے راستے کو اپنائیں گے۔ جبکہ اس وقت نہ صرف امریکہ کے دشمن اور حریف ممالک یعنی چین اور روس نے امریکہ کے برخلاف موقف اختیار کیا ہے بلکہ امریکہ کے یورپی اتحادی ممالک یعنی برطانیہ، جرمنی اور فرنس نے بھی ٹرمپ کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے کے تحفظ پر تاکید کی ہے-
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ ماسکو ایٹمی معاہدے کی پابندی کرے گا- روسیوں کے نقطہ نگاہ سے ایران نے مکمل طور پر اپنے وعدوں کی پابندی کی ہے اور اس ایٹمی معاہدے کو کمزور کرنے کی کوئی وجہ نہیں پائی جاتی- روس کے صدر ولادیمیر پوتین اور روس کی سلامتی کونسل کے اراکین نے بھی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کے بارے میں اپنی گہری تشویش کا اعلان کرتے ہوئے اس بین الاقوامی معاہدے کی اہمیت پر تاکید کی ہے-
واشنگٹن نے گذشتہ برسوں کے دوران یعنی دوہزار چودہ میں یوکرین کے بحران کے بعد ماسکو کے خلاف اپنے دشمنانہ موقف سخت کردیئے ہیں اور خاص طور پر امریکہ کے صدارتی انتخابات اور ان انتخابات میں مداخلت کے الزام کے بعد، وہ ماسکو کے خلاف پابندی کے اقدامات میں کاٹسا قانون کے دائرے میں تیزی لایا ہے۔ ساتھ ہی امریکہ کی 2017 کی قومی سلامتی کی اسٹریٹیجی کی دستاویز میں بھی صراحتا ایران اور روس کو علاقائی اور بین الاقوامی خطرہ بتایا گیا ہے- ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف امریکہ کے سابق صدور جمی کارٹر اور باراک اوباما نے ایٹمی معاہدے کے بارے میں ٹرمپ کے فیصلے کو امریکی تاریخ کی ایک بڑی غلطی قرار دیا ہے۔
سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے سی این این سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب کوئی امریکی صدر کسی معاہدے پر دستخط کرتا ہے تو اس کے جانشینوں کو اس کی پابندی کرنا چا ہئے۔ امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما نے بھی ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی معاہدے سے اخراج کے فیصلے کو غلط اور امریکہ کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ جامع ایٹمی معاہدے پر باراک اوباما کے دور حکومت میں دستخط کیے گئے تھے۔ دوسری جانب امریکی جریدے بلومبرگ نے رپورٹ دی ہے کہ ایٹمی معاہدے سے اخراج کے امریکی فیصلے سے ایران کی تیل کی برآمدات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور تیل کمپنیاں ایران کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گی۔ جامع ایٹمی معاہدے کے اخراج سے امریکی فیصلے کی دنیا بھر میں مخالفت کی جا رہی ہے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے لے کر یورپی یونین، چین، روس اور حتی امریکی سیاستدانوں کی جانب سے بھی ٹرمپ کے فیصلے پر نکتہ چینی کا سلسلہ جاری ہے۔ صرف مقبوضہ فلسطین، سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں نے ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی معاہدے سے اخراج کے فیصلے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
روس اس وقت ایران کو دو طرفہ مشترکہ مفادات کے حامل ایک شریک کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ اور ایران کے ٹھوس موقف کو، مغرب خاص طور پر امریکہ کے ساتھ تصادم کی صورت میں مدنظر قرار دے رہا ہے- توقع کی جا رہی ہے کہ روس ایٹمی معاہدے کی مکمل حمایت کے ساتھ ہی، ایران کے خلاف امریکہ کے ممکنہ اقدامات کے مقابلے میں ردعمل ظاہر کرے گا۔ یہ بات نہیں فراموش کرنی چاہئے کہ روس خود بھی اس وقت مغرب کی وسیع پابندیوں کی بھینٹ چڑھنے والا ملک ہے اور اسے امریکہ کے شدید دباؤ کا سامنا ہے-