May ۱۳, ۲۰۱۸ ۱۷:۱۷ Asia/Tehran
  • جواد ظریف کا دورۂ چین، امریکہ کے بغیر ایٹمی معاہدہ جاری رہنے کی جانب پہلا قدم

ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ہونے والے ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف ہفتے کی رات کو بیجنگ کے لئے روانہ ہوگئے تاکہ آج اتوار کو چین کے وزیر خارجہ سے ملاقات میں ایٹمی معاہدے کی سرنوشت کے بارے میں تبادلۂ خیال کریں-

جواد ظریف بیجنگ میں مذاکرات کے بعد ماسکو اور بریسلز بھی جائیں گے اور روس اور یورپی یونین کے حکام کے ساتھ تبادلۂ خیال کریں گے- واضح رہے کہ روس ، چین اور تینوں یورپی ملکوں نے ٹرمپ کے اقدام کی تائید نہیں کی ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایٹمی معاہدے کے فریق تینوں یورپی ممالک، ایٹمی معاہدے کے اقتصادی پہلوؤں کو باقی رکھنے کی کوشش تو کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کوششوں کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ یہ ایک ٹھوس مسئلہ ہے اور ایٹمی معاہدے میں یورپ کا کردار جاری رکھنے میں اقتصادی پہلو کا بہت زیادہ عمل دخل ہے- یورپی ملکوں کے مواقف میں بہت زیادہ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں جن سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کوئی حتمی اور قطعی ضمانت فراہم کئے بغیر ان ملکوں پر بھی اعتماد کرنا، امریکہ پر اعتماد کرنے کے تجربے کی تکرار ہوگی- 

روزنامہ ٹیگزاشپیگل نے لکھا ہے کہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے ایٹمی معاہدے کے تعلق سے امریکہ کے ساتھ تنازعات میں، یورپ سے حد سے زیادہ توقعات رکھنے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ انہوں نے جرمنی کے شہر میونسٹر میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں خود کو، جیسے ہیں اس سے زیادہ طاقتور ظاہر نہیں کرنا چاہئے، یورپ امن کی طاقت کے طور پر اکیلے کھڑے نہیں ہوسکتا.- مرکل نے یہ بھی کہا کہ بارہ برسوں کی سفارتی محنت سے طے پانے والی ڈیل کی توثیق، سلامتی کونسل نے بھی کی تھی اور امریکی صدر کے فیصلے سے گلوبل آرڈر یا عالمی امن کو نقصان پہنچا ہے۔

جرمنی کے وزیر اقتصاد پیٹر آلٹمائر نے بھی ایک تقریر میں جرمن چانسلر کے بیانات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرمنی کی حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ایران مخالف امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کے برخلاف، جرمن کمپنیوں کی حمایت کرے۔ فرانس اور جرمنی کے بھی اپنے مخصوص تحفظات ہیں لیکن چین اور روس کی صورتحال بہت واضح نظر آ رہی ہے کیوں کہ ایٹمی معاہدے سے قطع نظر یہ دونوں ملک امریکہ کے مد مقابل ہیں اور ایک صف میں نہیں کھڑے ہوسکتے۔ بیجنگ اور ماسکو کے نقطہ نگاہ سے علاقے میں ایران کا کردار اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔ ایٹمی معاہدے نے بھی ثابت کردیا ہے کہ عالمی مسائل کے حل کے لئے ایران، علاقائی و بین الاقوامی معاملات میں عظیم گنجائشوں کا حامل ہے۔ اس بناء پر ایران کے ساتھ  سلامتی کونسل کے ان دو بڑے ممبر ملکوں کا باقی رہنا نہ صرف ان کے لئے کسی ضرر کا باعث نہیں ہے بلکہ علاقے اور دنیا میں اجتماعی سلامتی اور امن و ثبات کے تحفظ کے لئے بھی یہ ضروری ہے۔ کیوں کہ یہ اتحاد امریکہ کی یکطرفہ پالیسی کی راہ میں مانع بن سکتا ہے- 

چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ یہ معاہدہ ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ ، علاقائی امن و استحکام کے تحفظ اور اسی طرح دنیا کے دیگر اہم مسائل کے حل میں مدد کرسکتا ہے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کی حفاظت اور اس پر عملدرآمد، تمام فریقوں کی ذمہ داری ہے اور یہی عالمی برادری کا مشترکہ مطالبہ اور آرزو ہے- 

یورپی یونین کی خارجہ  پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے بھی کہا ہے کہ یورپی یونین ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کو برقرار رکھے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی علیحدگی کے باوجود اس معاہدے کا احترام کیا جائے گا۔

اسٹریٹیجک سیکورٹی مسائل کے علاوہ آزاد عالمی تجارت کے نقطہ نگاہ سے بھی امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں کے مقابلے میں اسقامت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ درحققیت واشنگٹن کے خلاف اتحاد ، عالمی مفادات کے دفاع اور ایران اور ایٹمی معاہدے کے مسئلے سے بالاتر ہونے کے مترادف ہے- تہران نے اس معاہدے میں ایران کے باقی رہنے کو، ایٹمی معاہدے سے متعلق اقتصادی مفادات اور توقعات پوری ہونے کے لئے ضمانت فراہم کرنے سے مربوط کیا ہے۔

ساتھ ہی یہ کہ اقتصادی صلاحیتیں اور ایران کی اقتصادی گنجائشیں ایٹمی معاہدے سے قبل کے برسوں سے بہت زیادہ مختلف ہیں- اس کے ساتھ ہی اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ایٹمی معاہدے میں اب کچھ بچا نہیں ہے پھربھی ڈپلومیسی کی طاقت کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ تمام راستے واشنگٹن پر ہی ختم نہیں ہوتے- اقتصادی نقطہ نگاہ سے دنیا ، مغربی یورپ اور شمالی امریکہ میں ہی محدود نہیں ہے اور امریکہ کو قطعی طورپر ایٹمی معاہدے کی مخالفت میں شکست کا سامنا ہوگا-     

 

 

    

 

ٹیگس