گوٹرش اور یورپی یونین کے نام جواد ظریف کا خط
امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی شرمناک خلاف ورزی کی ہے اور اسے اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کے خطرناک کام کے انجام کا ذمہ دار قرار دینا چاہیے۔
ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹرش کے نام ایک کھلے خط میں کہ جو پیر کو شائع ہوا، اس موضوع پر تاکید کرتے ہوئے؛ ایٹمی سمجھوتے کی خلاف ورزی کے امریکی اقدام کو المناک دور کی جانب بازگشت اور ناکامی سے تعبیر کیا ہے-
جواد ظریف نے اس سلسلےمیں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی کے نام کھلے خط میں ایٹمی سمجھوتے کے مشترکہ کمیشن کی تشکیل کا بھی مطالبہ کیا ہے- ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف نے کہ جو ایٹمی سمجھوتے کے دیگر فریقوں سے صلاح و مشورے میں مشغول ہیں بیجنگ اور ماسکو میں ایٹمی سمجھوتے کے مستقبل کے سلسلے میں روسی اور چینی حکام سے گفتگو کی ہے- یہ صلاح و مشورہ بریسلز میں جرمنی ، فرانس اور برطانیہ کے وزرائےخارجہ کے ساتھ بھی جاری رہا-
ایٹمی سمجھوتے پر عمل درآمد کے سلسلے میں ایران ہمیشہ ایک قابل اعتماد فریق رہا ہے اور ایٹمی سمجھوتے پرعمل درآمد کے بارے میں ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی کی گیارہ رپورٹیں اس کا سب سے بڑا ثبوت ہیں- ان رپورٹوں اور ٹرمپ کے اقدامات پربڑھتی ہوئی تنقیدوں نے واشنگٹن کو دوبنیادی مسئلے سے دوچار کردیا ہے-
پہلامسئلہ ، امریکہ کو ایٹمی سمجھوتے کی مخالف پالیسیوں میں حمایت حاصل نہ ہونا ، کوئی ساتھی نہ ملنا اور عالمی برادری میں تنہا ہونا ہے- لیکن دوسرا مسئلہ ، ایٹمی سمجھوتے کی صورت حال کے مناسب اقدامات ، امریکہ کے دباؤ اور دھمکیوں کے سامنے پیچھے نہ ہٹنا اور عالمی برادری کے توسط سے اس کا جائزہ لینے پر ایران کی تاکید ہے-
بین الاقوامی امور کے ماہر حسین کاشانی کا کہنا ہے کہ ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے باہر نکل جانے کے باوجود اسے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پرعمل درآمد کی پابندی کرنا پڑے گی-
بین الاقوامی امور کے یہ ماہر ایٹمی سمجھوتے کی قانونی شقوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایٹمی سمجھوتہ ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کا جزء لاینفک شمار ہوتا ہے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق اسے اس قرارداد سے الگ نہیں کیا جا سکتا-
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے ایک بیان میں کہ جو ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے باہر نکلنے سے چند مہینے پہلے لکزمبرگ اجلاس میں جاری ہوا کہا ہے کہ ایٹمی سمجھوتہ یورپ کی بارہ سالہ سفارت کاری کا شاہکار ہے اور اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی توثیق حاصل ہے-
اب ایٹمی سمجھوتے کو باقی رکھنے اور اس سمجھوتے میں ایران کے مفادات کی ضمانت کے لئے وقت بہت محدود ہے - یورپی یونین دو میں سے صرف ایک راستے کا انتخاب کرسکتی ہے - پہلا راستہ یہ ہے کہ یورپی یونین اپنے واضح و شفاف موقف کا اعلان کرے کہ جس سے ثابت ہوسکے کہ اس نے پہلے جس چیز پر سخت تاکید کی ہے یعنی بین الاقوامی قوانین کی پابندی، اس پر باقی ہے- لیکن دوسرا راستہ امریکی اقدامات کی پٹری پر چلنا ہے اس صورت میں یورپی یونین کو اپنی حیثیت و اعتبار امریکی قانون شکنی کی نذر کرنا ہوگی اور پھرامریکہ کی من مانی ایٹمی سمجھوتے تک ہی محدود نہیں رہے گی اور یہ خطرناک بدعت، عالمی برادری خاص طور سے یورپی یونین کے مستقبل کے لئے بھی خطرناک ہوگی کیونکہ امریکی اقدام نہ صرف ایک چندجانبہ سمجھوتے میں اشتراک عمل کے خلاف ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایک کشیدگی میں تبدیل ہوگیا ہے-