May ۱۶, ۲۰۱۸ ۱۹:۰۶ Asia/Tehran
  • انتخابات کے بعد عراق کی سیاسی صورتحال پر ایک نظر

عراق کی سیاسی تبدیلیاں ان دنوں اس ملک کے پارلیمانی انتخابات سے متاثر رہی ہیں اور سب کی نگاہیں اس وقت ان انتخابات کے نتائج پر مرکوز ہیں-

عراقی انتخابات کے نتائج میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں شیعہ پارٹیوں کو نمایاں کامیابی ملی ہے- عراق کے پارلیمانی انتخابات کے اس مرحلے میں مختلف سیاسی گروہوں اور پارٹیوں نے ایک دوسرے کا مقابلہ کیا ہے۔ اہم ترین شیعہ اتحاد منجملہ نوری مالکی کی حکومت قانون الائنس، حیدر العبادی کی النصر، ہادی العامری کی الفتح اور مقتدی صدر کی سائرون نے عراق کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں مقابلہ آرائی کی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ عراق میں عمار حکیم کی حکمت پارٹی نے بھی عراق کی دیگر سیاسی پارٹیوں سے اتحاد کئے بغیر، مستقل طور پر انتخابات میں حصہ لیا تاکہ ایک پارٹی اور نوخیز سیاسی دھڑے کی حیثیت سے خود کو ظاہر کرے-

اس درمیان کردی پارٹیوں اور دھڑوں نے بھی اتحاد تشکیل دیئے بغیر انتخابات میں شرکت کی- اہل تسنن نے بھی مختلف اتحاد تشکیل دے کر انتخابات میں حصہ لیا کہ جس کے سبب عراق میں انتخابات کے ماحول میں مزید گرمی اور گہما گہمی پیدا ہوگئی- ان تبدیلیوں نے دہشت گردی سے مقابلے کے لئے عراقیوں کے عزم کو مزید مستحکم کیا ہے تاکہ وہ مزید قوت و طاقت کے ساتھ داعش کے بعد، عراق کی تعمیرنو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور مشکلات پر قابو پاسکیں- عراق کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ آئندہ جو کابینہ وجود میں آئے گی وہ بھی وفاقی ہوگی اور یہ مسئلہ پارٹیوں خاص طور پر شیعہ پارٹیوں کے درمیان تعاون کو دوچنداں کردیتا ہے- لیکن عراق کے حالیہ انتخابات میں ایک قابل غور نکتہ کہ جو درحقیقت ان انتخابات میں حیرت انگیز شمار ہوتا ہے ہادی عامری کی سربراہی میں الفتح پارٹی کی کامیابی ہے کہ جو ایک سیاسی پارٹی ہے تاہم عراق کی عوامی مزاحمت حشد الشعبی سے قریب ہے- اور اس پارٹی نے اکثریت سے ووٹ حاصل کرکے سیاسی مبصرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی ہے-

یہ مسئلہ عراق کے سیاسی حکام کے لئے عراقی عوام کی جانب سے اس پیغام کا حامل ہے کہ مزاحمت و استقامت ہی کو اس ملک کی مستقبل کی پالیسیوں میں بھی بدستور اہمیت حاصل ہونی چاہئے- عراق کی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کی قریبی پارٹی الفتح کو عراق کے پارلیمانی انتخابات میں ایسے میں اکثریتی ووٹوں سے کامیابی ملی ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب بھاری بھرکم رقم خرچ کرکے اس کوشش میں تھے کہ اس دفاعی اور سیاسی گرانقدر فورس کو کنارے لگادیں- 

اسی سلسلےمیں السومریہ نیوز کی ویب سائٹ نے اعلان کیا ہے کہ عراق کے صادقون پارلیمانی دھڑے نے کہ جو فتح الائنس کا حصہ ہے،  کے سربراہ حسن سالم نے اس ویب سائٹ کے ساتھ گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ واشنگٹن نے عراق کےانتخابات اور ان الائنس پر کہ جو حکومت تشکیل دیں گے، اثرانداز ہونے کے لئے بعض اقدامات انجام دیئے ہیں کہ جس میں عراق اور علاقے پر تسلط جمانے کا اس کا پروگرام شامل ہے-    

عراق میں سابق ڈکٹیٹر اور معدوم صدر صدام کی حکومت کے زوال کے بعد عراق میں یہ چوتھے پارلیمانی انتخابات ہیں جبکہ داعش دہشت گرد تنظیم پر غلبہ پانے کے بعد پہلے پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے ہیں۔عراق کے پارلیمانی انتخابات میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے 7367 امیدواروں نے حصہ لیا اور عراقی پارلیمنٹ کی 329 نشستوں کے لئے قسمت آزمائی کی۔

عراق کے انتخابات میں قابل غور نکتہ یہ ہے جن تینوں جماعتوں نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں یعنی سائرون، الفتح اور نصر، یہ وہ سیاسی پارٹیاں ہیں کہ جنہوں نے برسوں تک عراق کے سابق ڈکٹیر اور معدوم صدر صدام کے خلاف جنگ کی ہے - ان تینوں الائنس کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ ان میں مذہبی رجحانات پائے جاتے ہیں اس لئے عراق میں مغرب پسند سیکولروں کی اب کوئی جگہ نہیں ہے- مجموعی طور پر عراق کی تبدیلیوں اور پارلیمانی انتخابات کے نتائج  ، علاقے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک اور شکست کے آئنیہ دار ہیں کہ جو مختلف طریقوں سے عراقی عوام کی توجہ، دہشت گردی کے خلاف استقامت جاری رکھنے اور مغرب کی تسلط پسند طاقتوں کی سازشوں سے موڑنا چاہتے تھے، تاہم انہیں اس امر میں ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ہے-

ٹیگس