سعودی عرب میں نیشنل سیکورٹی گارڈ کے ہیڈکوارٹر پر حملہ
ذرائع ابلاغ نے مغربی سعودی عرب میں واقع شہر طائف میں فائرنگ کے واقعے کی خبریں دی ہے- بعض رپورٹوں کے مطابق دو مسلح افراد نے ایک سیکورٹی اہلکار پر حملہ کر کے شہر طائف کے روڈ نمبر ساٹھ پر واقع نیشنل گاڑد کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کردیا -
مقامی سعودی آنلائن اخبار نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ہے- گذشتہ مہینوں میں سعودی دارالحکومت ریاض سمیت اس ملک کے بعض بڑے شہروں میں اس طرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں جن سے ملک میں امن و سیکورٹی قائم کرنے میں آل سعود کی ناتوانی کھل کر سامنے آگئی ہے- سعودی حکومت نے ایک جانب اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرکے اور بھاری ٹیکس لگا کر عوام پر اقتصادی دباؤ بڑھا دیا ہے اور دوسری جانب سعودی ولیعھد بن سلمان نے کچھ سعودی شہزادوں کو گرفتار کرکے شاہی خاندان کے درمیان انتقامی جذبات کو بھڑکا دیا ہے- گذشتہ اپریل میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں سیکورٹی اہلکاروں اور نامعلوم مسلح افراد کے درمیان کئی گھنٹے تک جاری فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا- اس سلسلے میں تجزیہ نگار الجیوسی نے اپنے ایک مقالے میں جو روزنامہ رای الیوم میں شائع ہوا لکھا تھا کہ اکثر سعودیوں نے ریاض کے شاہی محل میں فائرنگ کے واقعے کو حکمراں خاندان کے درمیان اختلافات کا نتیجہ قرار دیا ہے-
سعودی عرب کے ولیعھد محمد بن سلمان نے بھی اس حملے کے تقریبا ایک مہینہ گذرنے کے بعد بھی منظرعام پر نہیں آئے ہیں جس کی بنا پراس حملے میں ان کے زخمی ہونے کا شک بڑھ گیا ہے- اس سلسلے میں سعودی اطلاعاتی اداروں کی خاموشی نے بھی افواہوں کا بازار گرم کردیا تاہم ان حالات میں قابل غور نکتہ، اس ملک میں سیکورٹی کے حوالے سے مشکوک واقعات اور اس سلسلے میں آل سعود کی ناتوانی ہے- اس موضوع سے سیکورٹی سمیت مختلف میدانوں میں آل سعود کی ناکامیوں میں اضافے کا پتہ چلتا ہے- اس سلسلے میں سیاسی ماہرین سعودی عرب کے سماجی ، سیاسی اور اقتصادی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے سابق سویت یونین جیسے انجام سے تشبیہ دے رہے ہیں یعنی شیرازہ بکھرنے سے - اس سلسلے میں فعال و معروف سعودی بلاگر مجتہد کا کہنا ہے کہ بہت سے ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے رواں سال یا آئندہ برس تک سعودی عرب میں کسی بڑی تبدیلی کی پیشگوئی کی ہے-
سعودی عرب کے حکمراں خاندان کو دو بنیادی مسئلے کا سامنا ہے؛ پہلا مسئلہ اس ملک میں اقتدار کی منتقلی کے طریقہ کارمیں آنے والی بڑی تبدیلی سے متعلق ہے - جب سے سعودی عرب کی تشکیل ہوئی ہے اس وقت سے ہی اقتدار کی منتقلی سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز کے بیٹوں کے درمیان یعنی بھائی سے بھائی کو منتقل ہوتی رہی ہے لیکن ملک سلمان نے بادشاہ بننے کے بعد اس اصول کو تبدیل کرتے ہوئے اقتدار کی منتقلی بھائی سے بھائی کے بجائے باپ سے بیٹے کی جانب موڑ دیا اور اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو اپنا ولیعھد بنا دیا اور یوں اقتدار کو حکمراں خاندان کی صرف ایک نسل میں منحصر کردیا- نظام حکومت میں یہ تبدیلی پہلے سے موجود نظام کے خلاف ایک بغاوت کے مترادف شمار ہوتی ہے جس کا بڑا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ جس کا اب تک بہت معمولی حصہ سامنے آچکا ہے-
دوسرا موضوع سعودی عرب میں حکمراں خاندان کے سیاسی سماجی اور اقتصادی اصلاحات کے عمل سے متعلق ہے- سعودی عرب میں سعودی ولیعھد بن سلمان کے مد نظر بڑے پیمانے پر انجام پانے والی نام نہاد اصلاحات اور تبدیلیوں سے اس سے ملک میں سیاسی و سماجی گھٹن اور گرفتاریوں کا بازار گرم ہوگیاجس کے باعث اندرون ملک بن سلمان کی مخالفتوں کی لہر آگئی ہے- اس بنا پر بن سلمان کے خاندان کو ہرلمحہ شاہی خاندان میں اپنے حریفوں کی جانب سے بغاوت اور ردعمل کا اندیشہ ہے اور عملی طور پر ان کی زندگی ایک ڈراؤنے خواب میں بسر ہو رہی ہے- سعودی عرب کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ ملک سلمان کے زمانے میں آل سعود کی حالت بہت متزلزل ہے-