جنرل اسمبلی میں اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور، امریکہ کو ایک بار پھر شکست
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کرکے، فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جرائم کی مذمت کی ہے اور امریکہ ایک بار پھر فلسطینی تحریک حماس کی مذمت کے لئے اپنی کوششوں میں ناکام رہا-
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے غزہ میں جارحیت پر ترکی اور الجزائر کی طرف سے اسرائیل کے خلاف پیش کی گئی مذمت کی قرار دار بھاری اکثریت سے منظور کرلی ہے اور اسرائیلی جارحیت پر فلسطینی تحریک مزاحمت حماس کو مورد الزام ٹھہرانے کی امریکی کوشش کو مسترد کر دیا ہے۔ 193 رکنی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی قرار داد کے حق میں 120جبکہ مخالفت میں صرف 8 ووٹ پڑے اور 45 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔امریکا کی طرف سے قرار داد میں ایک ترمیم تجویز کی گئی جس کے تحت تشدد پر اکسانے کا الزام عائد کرتے ہوئے حماس کی مذمت کی گئی تھی تاہم ترمیم کو قرار داد کا حصہ بنانے کےلئے درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہو سکی اور اس ترمیم کو مسترد کر دیا گیا۔
جنرل اسمبلی کے اراکین نے امریکہ کی مجوزہ قرارداد کے مسودے کے حق میں باسٹھ ووٹ دیئے جبکہ اڑتالیس ووٹ مخالفت میں ڈالے گئے اور بیالیس اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور اس طرح سے یہ مسودہ قرارداد نامنظور ہوگیا۔ اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ نیکی ہیلی نے اس قرارداد کے منظور نہ ہونے پر سخت اعتراض کیا۔ جنرل اسمبلی کے اس اقدام کے ساتھ ہی امریکہ کو ایک بار پھر اقوام متحدہ میں شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے- واضح رہے کہ یہ قرار داد قبل ازیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی تھی جہاں یکم جون کو امریکا نے اس کو ویٹو کر دیا تھا جس کے بعد ترکی اور عرب ممالک نے یہ قرار داد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ امریکہ کو فلسطین کے مسئلے میں عالمی سطح پر ردعمل کا سامنا ہے- اس مسئلے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ عالمی سطح پر امریکہ کی قوت و اقتدار کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوے کے باوجود، واشنگٹن دن بہ دن دنیا میں الگ تھلگ ہوتا جا رہا ہے - بیت المقدس کو سرکاری طور پر صیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کرنےاور امریکی سفارتخانے کو اس شہر منتقل کرنے کے ٹرمپ کے اقدام پر عالمی سطح پر ردعمل سامنے آیا ہے حتی خود اس کے یورپی اتحادیوں نے منفی ردعمل ظاہر کیا ہے۔ واشنگٹن نے غزہ میں واپسی مارچ میں شریک لوگوں پر اسرائیلی حملوں کو، جس میں بہت سے فلسطینی شہید ہوگئے تھے، اسرائیل کا دفاع قرار دیا ہے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے جنگی جرم قرار دیا ہے-
ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ غزہ میں واپسی مارچ میں شرکت کرنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی حملہ جنگی جرم شمار ہوتا ہے-
امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے سابق رکن رابرٹ مالی کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی یکطرفہ پسندی نے امریکہ کو الگ تھلگ کردیا ہے۔
جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں رکن ملکوں کے موقف نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عالمی نظام اب واشنگٹن کی منھ زوری اور تحکمانہ رویے کو برداشت نہیں کرے گا اور امریکہ کی دھمکیوں کے باوجود اس کے مطالبات اور مقاصد میں اس کا ساتھ نہیں دے گا۔ جیسا کہ اس وقت واشنگٹن، سلامتی کونسل ، یا گروپ سیون اور گروپ ٹوینٹی میں الگ تھلگ پڑگیا ہے۔ ساتھ ہی یہ کہ اس وقت صیہونی حکومت کو عالمی سطح پر اور اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں میں ایک ایسی قابل نفرت حکومت قرار دیا گیا ہے کہ جس کے جارحانہ اور وحشیانہ اقدامات سے اقوام عالم میں غم و غصہ پایا جاتا ہے-
امریکہ، اپنا سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے علاوہ، سعودی عرب اور صیہونی حکومت کو ڈکٹیٹ کرنے کے ساتھ ہی بعض عرب ملکوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے اور اسی طرح اسرائیل کی حمایت میں سنچری ڈیل سے موسوم منصوبہ پیش کرنے کے درپے ہے۔ یہ حمایتیں ایسی حالت میں جاری ہیں کہ اسرائیل کے توسط سے فلسطینیوں کا قتل عام بدستور جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس وقت اقوام متحدہ میں امریکہ کی پے در پے شکست سے یہ ثابت ہوگیا کہ امریکہ ماضی سے زیادہ اس وقت الگ تھلگ پڑگیا ہے۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی دشمنانہ پالیسیوں کی ٹرمپ کی جانب سے غیر مشروط حمایت اس بات کا باعث بنی ہے کہ حتی بعض امریکی اتحادی بھی اسرائیل کے سلسلے میں ٹرمپ کی پالیسیوں کے تعلق سے شکوک و شبہات سے دوچار ہوجائیں-