Jun ۲۰, ۲۰۱۸ ۱۶:۰۷ Asia/Tehran
  •  انسانی حقوق کونسل سے امریکہ کے باہر ہونے کے نتائج

امریکہ ایک اور بین الاقوامی ادارے سے باہر نکل گیا - اس بار وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے باہر نکلا ہے کہ جو اقوام متحدہ کی زیرنگرانی انسانی حقوق کے مسائل کا جائزہ لینے والا ایک اہم ادارہ ہے-

اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکی ہیلی نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے امریکہ کے باہر نکلنے کی توجیہ کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ایران اور ونزوئیلا جیسے ملکوں میں بقول ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اس انسانی حقوق کونسل کی خاموشی کی بنا پر واشنگٹن نے اس کونسل سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا ہے- انھوں نے اعلان کیا کہ فلسطینیوں کے سلسلے میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی پراقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے باربار تنقید بھی امریکہ کے اس  فیصلے کا باعث بنی ہے- البتہ امریکی حکومت نے حالیہ برسوں میں بارہا کوشش کی ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور دیگر بہت سے اداروں کا رخ اپنے مفادات میں موڑنے نیز ان اداروں کو اپنے اتحادیوں کی حوصلہ افزائی اور دشمنوں کو سزا دینے پر مبنی اپنی خارجہ پالیسی کے لئے آلہ کار بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے - اس کے باوجود انسانی حقوق کے موضوع سے امریکہ کی جانب سے غلط فائدہ اٹھایا جانا خاص طور سے صیہونیوں کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی اور فلسطینیوں پر ان کے جرائم و مظالم کو چھپانے کی کوششیں اکثر ملکوں کی مخالفت کا سبب بنی ہیں- اس بنا پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل جیسے اداروں کا امریکہ کے ہاتھوں غلط استعمال جاری رکھنے میں واشنگٹن کی ناکامی  کے بعد اس نے باہر نکلنے کا راستہ اختیار کیا بالکل اسی طرح جیسے وہ ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے ، ٹرانس تجارتی معاہدے ، پیسفک، یونسکو اور ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے باہر نکلا ہے-

اقوام متحدہ کےاس اہم ذیلی ادارے کے ساتھ یہ دشمنانہ رویہ ایسی حالت میں اختیار کیا گیا ہے کہ غیرقانونی مہاجرین کے والدین سے بچوں کی جبری علیحدگی اور جنوبی امریکہ میں ان کی گرفتاریوں نے امریکہ کے خلاف نفرت و غصے کی ایک لہر پیدا کردی ہے- امریکہ کے اندر اور باہر کی شخصیات نے بھی اس طرح کے رویے کو انسانی حقوق، انسانیت اور اخلاقیات کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور اسے ایک ظالمانہ روش نیز دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں جیسا رویہ بتایا ہے- اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین کا کہنا ہے کہ ہم امریکہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ میکسیکو سے امریکہ میں داخل ہونے والے مہاجروں سے ان کے بچوں کو زبردستی الگ کرنے کا سلسلہ روک دینا چاہئے-

 یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکی حکومت کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی صرف کمسن بچوں کی گرفتاری اوران بچوں کو جیلوں میں ڈالنے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ کم سے کم گذشتہ دوعشروں کے دوران امریکہ کی جانب سے اس ملک کے اندر اور باہر ایسی متعدد مثالیں دیکھنے کوملی ہیں- کیوبا میں بدنام زمانہ گونتانامو جیل ، عراق میں ابوغریب اور افغانستان میں بگرام جیسی جیلوں کو قائم کرنا اور اس میں ، واٹرکینن کی روش سے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنانا ، خفیہ عقوبتخانے قائم کرنا ، خود امریکہ میں بعض سیاہ فام نوجوانوں سے جینے کا حق چھین لینا ، مہاجرت سے متعلق غیرانسانی پالیسیاں اختیار کرنا، دنیا کے مختلف ملکوں کے شہریوں کی جاسوسی اور صیہونی حکومت ، بحرین اور سعودی عرب  جیسی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کرنے والی حکومتوں کا ساتھ دینا ، انسانی حقوق سے متعلق امریکیوں کی کارکردگی کی معدودے چند مثالیں ہیں- اس بنا پر دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے سب سے بڑا ملک کے کہ جو انسانی حقوق کے معاملے میں دنیا کے دوسرے ممالک کے بارے میں مفتّش اور قاضی کا کردار بھی ادا کرنا چاہتا ہے ، انسانی حقوق کے سب سے بڑے ادارے سے باہر نکل جانے پر حیرت نہیں کرنا چاہئے- اس طرح کے فیصلے سے امریکی حکومت کو انسانی حقوق کی پامالی اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کی بھرپورحمایت کا پورا موقع مل جائے گا-

 

 

ٹیگس