ایران کے مسافر بردار طیارے پر امریکی حملہ
تین جولائی انّیس سو اٹھّاسی کو خلیج فارس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مسافر بردار طیارے کو امریکی بحری بیڑے ونسنس کی جانب سے میزائلوں کا نشانہ بنائے جانے کے وحشیانہ واقعے کو آج تیس سال کا عرصہ گذر چکا ہے تاہم امریکہ کی جارحانہ خصلت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
تین جولائی انیس سو اٹھاسی میں اسلامی جمہوریہ ایران کا مسافربردار طیارہ جو دس بج کر پندرہ منٹ پر بندر عباس سے دبئی کے لئے روانہ ہوا تھا، دس بج کر چوبیس منٹ پر چار ہزار تین سو میٹر کی بلندی پر امریکہ کے یو ایس ایس ونسنس بحری بیڑے سے فائر کئے جانے والے دو میزائلوں کا نشانہ بنا اور جزیرہ ہنگام کے قریب گر کرتباہ ہوگیا۔اس حادثے میں تمام مسافر شہید ہوگئے جن میں بارہ سال سے کم عمر کے چھیاسٹھ بچے اور باون عورتیں بھی تھیں - اس ہولناک جرم کے فورا بعد امریکی حکام نے اعلان کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایک ایف چودہ طیارے کو نشانہ بنایاگیا ہے۔ امریکی حکام نے اپنے کھلے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایرانی ائیربس ائیرکوریڈور کے دائرے سے باہر پرواز کر رہا تھا اور امریکی بیڑے نے ایرانی طیارے کو سات بار انتباہ بھی دیا لیکن کوئی جواب دریافت نہیں کیا۔اس سلسلے میں سائیڈز بحری بیڑے کے سابق کمانڈر کیپیٹن کارلسن نے کہا کہ ایرانی ائیربس غیرفوجی ہونے پرمبنی علامتیں بھیج رہا تھا اور کم رفتار سے اونچائی کی طرف پرواز کر رہا تھا اور اگراس حالت میں اس کی شناخت ایف چودہ کی حیثیت سے کی جاتی تو بھی مجھے نہیں لگتا کہ وہ ونسنس یا سائڈز یا کسی بھی بحری بیڑے کےلئے معمولی خطرہ بھی ہوسکتا تھا۔انھوں نے کہا کہ فورسٹل طیارہ بردار بحری بیڑے کے ریڈار آپریٹر نے ایک تجارتی جہاز کی حیثیت سے اس کی شناخت کی تھی۔
اگرچہ اس مسافر بردار جہاز کو مار گرانے کے بعد امریکی حکام نے اپنے اس ناقابل معافی گناہ کی توجیہ کرتے ہوئے اس دشمنانہ اقدام کو ایک غلطی سے تعبیرکرنےکی کوشش کی لیکن امریکی جنگی بیڑے وینسنس کے جدیدترین آلات اور ریڈار سسٹم سے لیس ہونے اور پرواز کے وقت طیارے کی نوعیت واضح ہونے سے یہ طے ہے کہ غلطی کا امکان موجود نہیں تھا اور یہ جارحیت پوری طرح سے جان بوجھ کرانجام دی گئی تھی - طیارے کے ٹوٹے ہوئے حصے، اور مسافروں کی لاشیں جزیرہ ہنگام کےجنوبی ساحلوں پر ایرانی سمندری حدود کے اندر بکھرے پڑے تھے اور یہ جگہ بندرعباس دبئی ائیرکوریڈور کےمرکزی حصے کے نیچے واقع ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ طیارہ اپنے مقررہ راستے پر پرواز کررہا تھا جیسا کہ اس واقعے کے چار سال بعد امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں لکھا کہ وینسنس بحری بیڑا ایرانی سمندری حدود میں تھا نہ کہ بین الاقوامی سمندری حدود میں اور اس وقت امریکی وزارت دفاع نے اس حقیقت کو چھپایا ہے۔
امریکی چیف آف دی آرمی اسٹاف بریگیڈیئر ویلیم کراو نے ریگن کے دور حکومت میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ وینسنس بحری بیڑا بلاکسی واضح سبب کے، دور مارمیزائلوں اورتوپوں سے لیس ہوکر ایران کے سمندری حدود میں آیا تھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ بیڑا جان بوجھ کر بری نیت کے ساتھ آیا تھا۔
امریکی حکام جنھوں نے تیرہ سوباسٹھ ہجری شمسی مطابق انیس سو تراسی میں جنوبی کوریا کے ایک مسافر بردارطیارے کو مارگرائے جانےکو بربریت قراردیا تھا اور سابق سویت یونین کی انٹرنیشنل ائرلائنس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا، ایران کےمسافر بردار طیارے پرفضائی حملے کاجرم انجام دینے کے بعد جھوٹے پروپیگنڈوں اور بے بنیاد دعوؤں سے اس حادثے کونہ صرف معمولی ظاہر کرنے کی کوشش کی بلکہ امریکی حکومت نے اس واقعے کے کچھ دنوں بعد ملت ایران کی کھلی توہین کرتے ہوئے یو ایس ایس وینسنس بحری بیڑے کے کیپٹن کو بہادری کے ایوارڈ سے نوازا اور اس جرم کی باقاعدہ حمایت کا اعلان کیا- بہرحال امریکی حکام اپنے جرائم کو چھپانے کی چاہے جتنا بھی کوشش کرلیں تاہم امریکی حکومت کے بے شمار جرائم کے ساتھ ہی ایران کے مسافر بردار طیارے کو میزائلوں کا نشانہ بنانے کا یہ ناقابل معافی جرم اس حقیقت کا محکم ثبوت ہے کہ امریکہ، ہمیشہ کی مانند اس دور میں بھی دہشتگردی اور دہشتگردوں کا سرغنہ ہے اور اس غیرانسانی حادثے کو تیس سال کاعرصہ گذرنے کے بعد بھی امریکہ کی وحشیانہ اور جارحانہ طبیعت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور افغانستان ، عراق ، شام اور یمن میں اس کے جرائم اس حقیقت کا منھ بولتاثبوت ہیں-