ترکی کی جانب سے ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی دوبارہ مخالفت کا اعلان
ترکی کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کر کے اسلامی جمیہوری ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کا ساتھ دینے کے لئے واشنگٹن کے دباؤ پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے
ترکی کی وزارت خارجہ کے بیان میں آیا ہے کہ ترکی کے متعلقہ اداروں کی کوشش ہے کہ اس ملک کو ایران کے خلاف پابندیوں کے منفی اثرات سے دور رکھیں-
حکومت ترکی نے ایسے عالم میں ایران کے خلاف پابندیوں میں مشارکت پر مبنی امریکی درخواستوں کا منفی جواب دیا ہے کہ اس سے پہلے امریکہ بھی بارہا ترکی حکومت کی درخواستوں کا منفی جواب دے چکا ہے جن میں جولائی دوہزارسولہ میں ترکی میں ناکام بغاوت کے عناصر کو انقرہ حکومت کی تحویل میں دینے کی ترکی کی درخواست کی جانب بھی اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ جس کا امریکہ نے منفی جواب دیا تھا-
بہرحال یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ جب انقرہ کے حکام نے علاقے اور دنیا میں واشنگٹن کی پالیسیوں کی پیروی کی مخالفت کا اعلان کیا ہے- ترکی کے حکام نے بارہا تاکید کی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کو واشنگٹن کے مطالبات کی بنا پر درہم برہم نہیں کریں گے-
ایران ، اقتصادی ، تحارتی اور انرجی فراہم کرنے کے لحاظ سے علاقے کا ایک اہم ملک اور ترکی کا پڑوسی ہے -ایران ، ترکی کو خام تیل اور گیس جیسے فسیلی ایندھن فراہم کرنے والا ایک اہم ملک شمار ہوتا ہے- اس سلسلے میں مشرق قریب کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اٹلی کے ماہرمشرقیات ماسیموکمپانینی ٹرمپ حکومت کی ایران مخالف پالیسیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : مشرق وسطی میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پالیسیاں اسرائیل اور سعودی عرب کے مفاد میں ایک ناقابل قبول اورغیرمتوازن پالیسی ہے کہ جو علاقے کے عدم استحکام پر منتج ہو رہی ہے اور آخر کار ترکی اور یورپی یونین کے نقصان میں ہوگی-
اس کے ساتھ ہی ترکی کے حکام نے حالیہ برسوں میں کوشش کی ہے کہ وہ ایران اور امریکہ کے سلسلے میں ثالثی کا کردار ادا کرے- یہی وجہ ہے کہ ترکی ، ایران کے خلاف امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتا-
ایران اور ترکی کے تعلقات کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالنے سے یہ حقیقت سمجھی جا سکتی ہے کہ تہران اور انقرہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ مثبت ، تعمیری اور روز بروز فروغ پاتے ہوئے تعلقات کے حامل رہے ہیں اور بہت کم ہی اغیار خاص طور سے امریکہ جیسی تسلط پسند حکومت کے پروپیگنڈوں کے زیراثر رہے ہیں- اس کے باوجود ایران کے خلاف پابندیوں میں شرکت کے بارے میں امریکہ کی درخواست کا ترکی کی جانب سے منفی جواب واضح کرتا ہے کہ انقرہ اور واشنگٹن کے تعلقات آئندہ دنوں میں نئے مسائل سے دوچار ہوں گے- اس سلسلے میں پہلا قدم اٹھاتے ہوئے باب کروکر کی سربراہی میں امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ترکی کو قرض دیئے جانے کو معلق کرنے کا بل تیار کرکے امریکی کانگریس میں پیش کیا ہے- اس بل میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت ، عالمی بینک ، یورپ کے ای بی آر ڈی بینک ، انٹرنیشنل فائننس کارپوریشن اور عالمی مالیاتی فنڈ سے درخواست کرے کہ وہ ترکی کو قرض نہ دیں- واضح ہے کہ یہ بل صرف ترکی پر دباؤ ڈالنے کے لئے تیار کیا گیا ہے- مجموعی طور پر ایران کے خلاف امریکی پابندیوں میں شامل ہونے کے مطالبے کو ماننے سے ترکی کے انکار کو امریکہ کے ناجائز مطالبات کے سلسلے میں ایران کے پڑوسی ملکوں کے مواقف کا ایک نمونہ سمجھا جا سکتا ہے- توقع ہے کہ ایران کے دیگر پڑوسی ممالک بھی امریکی مطالبات کے سلسلے میں ترکی جیسا موقف ہی اختیار کریں گے-