Jul ۲۴, ۲۰۱۸ ۱۷:۵۶ Asia/Tehran
  • ٹرمپ کی لن ترانیوں سے وائٹ ہاؤس کی پسپائی

امریکہ نے ٹرمپ کے دور صدارت میں ایران مخالف اپنے موقف و اقدامات تیز کردیئے ہیں- ٹرمپ نے آٹھ مئی دوہزار آٹھارہ میں ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلنے کا اعلان کردیا اور ایران کے خلاف شدید ترین پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی کہ جس کی عالمی سطح پر مخالف ہوئی اور یوں امریکہ نے عملی طور پر ایران کے خلاف اقتصادی جنگ شروع کردی ہے-

ڈونالڈ  ٹرمپ کے ان اقدامات کا مقصد بظاہر تہران سے ایٹمی پروگرام پوری طرح بند کرنے کے امریکی مطالبات کو منوانا ، میزائلی صلاحیتوں کو پوری طرح ختم کرانا اور ایران کے علاقائی اقدامات اور پالیسیوں کو ترک کرانا ہے تاہم امریکہ کے سلسلے میں ایران نے بھرپور اور مضبوط ردعمل ظاہر کیا ہے - اس سلسلے میں ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اتوار کو انتباہ دیا کہ ٹرمپ شیر کی دم سے نہ کھیلیں کیونکہ ایران، اسے ایسا جواب دے گا کہ وہ پچھتائے گا-

اس کے جواب میں ٹرمپ نے اپنے تازہ ترین ٹوئیٹ میں ایک انفعالی ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بڑے حروف میں لکھا کہ : امریکہ کو دوبارہ کبھی بھی ہرگزدھمکی نہ دینا- اس کے باوجود ٹرمپ کے اس انتباہ کو سنجیدگی سے لئے جانے کے بجائے خاص طور سے ڈیموکریٹس کی جانب سے اور سوشل میڈیا پر اس کا مذاق اڑایا گیا ہے اور اسی بنا پر وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارا سینڈرز نے کھلی پسپائی اختیار کرتے ہوئے امریکی صدر کی ایران مخالف لن ترانیوں کی توجیہ پیش کرنے کی کوشش کی- سارا سینڈرز نے پیر کو ایران کے خلاف ٹرمپ کے ٹوئیٹر پیغام پر ردعمل میں کہا کہ ٹرمپ، دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتے اور وہ ہلسینکی میں روسی صدر ولادیمیر پوتین کے ساتھ حالیہ متنازعہ ملاقات کے بارے میں جاری بحث کا بھی رخ نہیں موڑنا چاہتے ہیں-

اس ردعمل سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ کہ جنھوں نے مبالغہ آرائیوں، لن ترانیوں اور فریق مقابل کو دھمکانے کی اپنی برانی عادت کے تحت تہران کو بھی دھمکانے کی کوشش کی ہے تاہم اس بار وہ ایران نام کی سخت رکاوٹ سے دوچار ہیں- ایران کو گذشتہ تقریبا چالیس برسوں سے امریکی صدور کے دعؤوں اوردھمکیوں کی عادت ہوچکی ہے اور تہران نے کبھی بھی پسپائی نہیں اختیار کی ہے- اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں لکھا کہ ہمیں امریکہ کی نئی چھلانگ سے کوئی خوف نہیں ہے اور ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے -

دنیا، چند مہینے پہلے اس سے بھی بڑی کھوکھلی دھمکیاں سن چکی ہے اور ایرانی بھی گذشتہ چالیس برسوں سے اس طرح کی دھمکیاں سنتے آرہے ہیں البتہ کچھ مہذب انداز میں-  ٹرمپ اور ان کی سیکورٹی ٹیم ایک طرف ایران کو اپنے من پسند سمجھوتے تک پہنچنے کے لئے مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کررہی ہے تاکہ ایران کے خلاف مزید سخت پابندیاں عائد کرسکے اور دوسری جانب ایران کے اندر بدامنی پیدا کرنے کے لئے ناراضگی بڑھانے کی بھی کوشش کررہی ہے -

اگرچہ واشنگٹن کی کوشش ہے کہ ایران کے خلاف ایک بار پھر سخت ترین پابندیوں پرعمل درآمد کرے لیکن اس بار اس کے پکے اتحادی بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کے خلاف اقدام میں واشنگٹن تنہا رہ گیا ہے- اسی وجہ سے وائٹ ہاؤس نے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ صلاح و مشورے بڑھا دیئے ہیں- وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارا سینڈرز نے پیر کو کہا کہ امریکہ ایران کے بارے میں اپنے یورپی اتحادیوں سے صلاح و مشورہ جاری رکھے گا- امریکہ، ایران کے اقتصادی و تجارتی شرکاء پر سخت دباؤ ڈالنے کے باوجود اب تک ایران کے اقتصادی بائیکاٹ میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوا ہے- یہاں تک کہ ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے بہت سے ممالک بھی امریکہ سے ایرانی تیل کی خریداری کی اجازت ملنے کا مطالبہ کر رہے ہیں-

ٹیگس