ایران پر حملے کے لئے امریکی وزیر دفاع کی ناتوانی کا اعتراف
امریکہ نے گذشتہ چند عشروں کے دوران بارہا ایران کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کی دھمکی دی ہے۔
خاص طور پر جارج ڈبلیو بش کے دور حکومت میں کہ جس نے دہشت گردی کے بہانے سےعراق اور افغانستان پر حملہ کیا تھا، اس وقت ایران پر حملے کا مسئلہ ٹھوس صورتحال اختیار کرگیا تھا تاہم ایران کی دفاعی صلاحیت کے پیش نظر ایسا ممکن نہ ہوسکا- امریکی صدر بارک اوباما کے دور حکومت میں بھی بارہا ایران کے خلاف تمام آپشن میز پر ہونے کی بات کہی گئی- اوباما نے ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کو روکنے کی غرض سے ایران کو مجبور کرنے کے لئے اس کے خلاف سنگین پابندیاں عائد کردیں اور ساتھ ہی تہران کو ڈرانے دھمکانے کے لئے اس کے ایٹمی پرگرام سے مقابلے کے لئے بارہا فوجی حملے کی دھمکی بھی دی-
اور پھرامریکی صدر ٹرمپ نے برسراقتدار آنے کے بعد سے انتہائی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے ذریعے ایران کو دھمکانے کی کوشش کی ہے- ٹرمپ نے نومئی 2018 کو یعنی ایٹمی معاہدے سےامریکہ کے نکلنے کے ایک دن بعد ایران کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایران یا مذاکرات کرے یا پھر بدترین حالات سے نمٹنے کے لئے تیار ہوجائے- ٹرمپ نے کہا کہ میں ایران سے یہی کہوں گا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کا از سر نو آغاز نہ کرے اور اگر اس نے ایسا کیا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرے پڑے گا-
باجودیکہ بعض تجزیہ نگاروں نے سنگین نتائج سے مراد ایران کے خلاف فوجی حملے سے تعبیر کیا ہے لیکن امریکہ کے سینئر فوجی حکام کا حالیہ موقف اس کے برخلاف نظر آرہا ہے- امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس نے اپنے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف حملے کی توانائی نہیں رکھتے- انہوں نے کہا کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے لئے امریکی منصوبہ بندی پر مبنی میڈیا کے پروپگنڈوں کو من گھڑت اور خیالی بتایا ہے- اے بی سی نیوز نیٹ ورک نے جمعرات کو آسٹریلیا حکومت کے بعض ذرائع کے حوالے سے دعوی کیا ہے کہ امریکی حکومت، ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی پلاننگ کر رہی ہے- تاہم آسٹریلیا کے وزیر اعظم میلکم ٹرنبل Malcolm Turnbull نے اس رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے اسے نامعلوم ذرائع کی جانب سے جھوٹی اور غلط قیاس آرائی قرار دیا ہے-
اس امر کے پیش نظر کہ امریکیوں کو ایران کی دفاعی صلاحیت کا اندازہ ہے، اسی بناء پر امریکی وزیر دفاع کی جانب سے ایران پر حملے کی تردید سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ کی صورت میں امریکی فوجیوں اور تنصیبات کو علاقے میں سنگین نقصان پہنچ سکتا ہے- حالیہ دنوں میں ایران اور امریکہ کے حکام کے درمیان لفظی کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ کی مہم جوئی اور ایران کے خلاف دھمکیوں کے جواب میں امریکی صدر کو خطاب کر کے کہا ہے کہ مسٹر ٹرمپ! شیر کی دم سے مت کھیلو ورنہ پچھتاؤگے!۔ جامع ایٹمی معاہدہ سے یک طرفہ طور پر نکل جانے کے بعد امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف مسلسل دھمکیوں کا بازار گرم ہے۔ مگر ایرانی حکام اپنے گزشتہ چالیس سالہ تجربہ کی روشنی میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ ایران نہ صرف یہ کہ ان گیدڑ بھپکیوں سے نہیں ڈرتا بلکہ ان کا پوری طرح مقابلہ کرنے کی بھی طاقت رکھتا ہے- اس کے مقابلے میں ٹرمپ نے بھی فورا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایران کو دھمکی دیتے ہوئے ایک ٹوئیٹ میں ڈاکٹر روحانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو ہرگز دھمکی نہ دینا ورنہ ایسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا کہ جس کی تاریخ میں کم ہی مثال ملے گی- ٹرمپ کی اس دھمکی کو نہ صرف سنجیدہ سمجھایا گیا ہے بلکہ خود امریکی ڈموکریٹس نے بھی ٹرمپ کی اس دھمکی آمیز بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے-
ایران کی سپاہ قدس کے سنیئر کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نے بھی ایران کے خلاف ٹرمپ کی حالیہ دھمکیوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ تم نے اگر ایران کے خلاف جنگ شروع کی تو اس کا آغاز تو تمہارے ہاتھ میں ہے مگر اس کا انجام ہم رقم کریں گے۔ قاسم سلیمانی نے امریکی حکام کو یاد دہانی کراتے ہوئے کہا:کیا تم بھول گئے ہو کہ تم ایک زمانے میں ٹینکوں میں بیٹھے اپنے سپاہیوں کے لئے بڑے سائز کے پیمپرز (پیکنگ) فراہم کیا کرتے تھے اور آج آکر تم ہمیں دھمکانے کی کوشش کرتے ہو؟ تم لبنان کی ۳۳ روزہ جنگ میں کیا بگاڑ پائے؟ کیا تم نے اُس وقت جنگ کے خاتمے کے لئے حزب اللہ کی شرطوں کو تسلیم نہیں کیا؟! انہوں نے امریکی حکام سے سوال کیا کہ آج تک تم ہمارا کیا بگاڑ پائے تو آج آکر تم ہمیں دھمکاتے ہو؟!
ایران کا ٹھوس اور مقتدرانہ ردعمل اس بات کا باعث بنا ہے کہ امریکہ کے وزیر دفاع جیسے سینئر حکام نے ایران کے خلاف کسی بھی قسم کی فوجی یلغار کا سرے سے انکار کردیا ہے-