افغانستان میں فرقہ وارانہ جنگ کو ہوا دینے کی کوشش
افغانستان کی وزارت داخلہ نے صوبہ پکتیا کے شہر گردیز میں واقع مسجد امام زمان (عج) میں خودکش حملے میں شہید ہونے والوں کی تعداد اکتیس بتائی ہے جبکہ اکیاسی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں-
سٹی پولیس کے اعلی افسر جمیل ہوتک کے مطابق دو خودکش حملہ آوروں نے شہر گردیز کی مسجد امام زمانہ میں داخل ہوکر نمازیوں پر فائرنگ کی اور پھر خود کو دھماکے سے اڑا دیا-
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے، اپنے ایک بیان میں افغانستان کے صوبے پکتیا کے دارالحکومت گردیز میں واقع مسجدامام زمان (عج ) پر گزشتہ روز کے خودکش حملے کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان پر مسلط کی جانی والی دہشتگردی کا اصل مقصد افغان قوم کے درمیان تفرقہ ڈالنا اور ملک کو طویل بدامنی کا شکار کرنا ہے- بہرام قاسمی نے کہا کہ افغان عوام کے اتحاد اور ہوشیاری سے ہی ان کے خلاف دہشتگردوں کی سازشیں ناکام ہوں گی۔
گذشتہ تین برسوں میں افغانستان میں داعش دہشت گرد گروہ کے وجود میں آنے کے بعد سے اس ملک میں اہلسنت اور شیعوں کی مسجدوں اور امامبارگاہوں پر فرقہ وارانہ جنگ کو ہوا دینے کے مقصد سے حملوں میں اضافہ ہوا ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کے برسوں میں بھی ، کسی بھی گروہ نے فرقہ واریت کو ہوا نہیں دی اور عام طور پر سبھی گروہ، قومی مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ لیکن پاکستان میں سرگرم لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ جیسے فرقہ پسند عناصر اور دہشت گرد گروہوں کی، داعش دہشت گرد گروہ کے ساتھ بیعت کے اعلان کے ساتھ ہی، ان گروہوں نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ افغانستان تک پھیلا دیا اور وہ مسجدوں میں دھماکے کرکے اور بے گناہ نمازیوں کی جانیں لے کر اپنے آقاؤں سے مالی امداد حاصل کرنے میں کوشاں ہیں اور وہ پاکستان میں وہابیت کے فروغ کے ساتھ ہی علاقے میں فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں-
افغان عوام نے ابھی تک مکمل ہوشیاری کے ساتھ دہشت گردوں کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے ملک میں فرقہ واریت کو پنپنے نہیں دیا ہے- افغانستان میں بعض حلقے دہشت گردوں کی جانب سے نمازیوں کے قتل عام کو، ایک طرح سے افغان فوج کی کاروائیوں میں ان کی بھاری شکست کا انتقام لینے اور تلافی سے تعبیر کر رہے ہیں کہ جن میں داعش کے متعدد سرغنے ہلاک کئے گئے ہیں-
سیاسی مسائل کے ماہر وحید مژدہ کہتے ہیں " یہ حملہ افغانستان میں ناقابل معافی جرم ہے- داعش دہشت گرد گروہ افغانستان میں ایک مذہبی جنگ چاہتا ہے- یہ دہشت گرد گروہ افغان عوام کی اقدار پر یقین نہیں رکھتا اور ان افراد کو جو ان کے ہم فکر نہیں ہیں دشمن سے خطاب کرتے ہے-
اگرچہ گروہ طالبان نے ایک بیان میں مسجد امام زمان (عج) میں دہشت گردانہ حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے لیکن افغانستان میں داعش اور فرقہ پسند عناصر کے دہشت گردانہ حملوں میں بالواسطہ طور پر یہ گروہ بھی شریک شمار ہوتا ہے کیوں کہ اگر طالبان گروہ، افغان حکومت کے ساتھ امن کے عمل میں شامل ہوجائے، تو اس ملک کی فوج افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کو نابود کرسکتی ہے-
بنابر ایں افغان عوام اور حکومت کے خلاف طالبان کی جنگ جاری رہنے سے، دہشت گرد گروہوں کے لئے مختلف ناموں سے اس ملک میں دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دینے کا راستہ ہموار ہے-
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کہتے ہیں کہ طالبان کو ان اغیار کا ہتھکنڈہ اور آلہ کار نہیں بننا چاہئے کہ جو افغانستان کو نابود یا کمزور کرنے کے درپے ہیں- دہشت گردانہ حملے ، افغانستان کو نابود کرنے کے لئے بیرونی ملکوں کے وسیع پروپگنڈے کا ایک حصہ ہیں- اس لئے طالبان گروہ کو اس کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ افغانستان کے عام شہری اور ان کے ہم وطن مارے جائیں-
بہرصورت افغانستان میں بحران و بدامنی کے خاتمے کا واحد راستہ، تمام سیاسی ، قومی اور مذہبی دھڑوں کی شرکت سے اس ملک میں امن کے عمل کو آگے بڑھانا اور قومی اتحاد کو تقویت پہنچانا ہے-
افغانستان کے عوام نے تاریخ کے طویل دور میں یہ ثابت کیا ہے کہ اتحاد و اتفاق کی صورت میں انہوں نے برطانیہ اور سوویت یونین جیسی سامراجی طاقتوں کو شکشت دی ہے اور اس وقت بھی اتحاد و وحدت کے ساتھ ہی دہشت گرد گروہوں منجملہ داعش اور ان کے آقاؤں کو شکست دینا ان کے لئے چنداں سخت کام نہیں ہے-