Aug ۰۷, ۲۰۱۸ ۱۶:۵۹ Asia/Tehran
  • سعودی عرب میں انسانی حقوق کے قیدیوں کی آزادی کے لئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی درخواست

انسانی حقوق کے مختلف شعبوں میں فعال شخصیتوں اور حکومت مخالفین پر سعودی حکومت کا دباؤ اور ان کی جاری گرفتاریوں کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سرکوبیاں بند کرنے اور مخالفین و سرگرم شہری و سماجی شخصیتوں کی آزادی کا مطالبہ کیا ہے-

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ سعودی عرب نے حالیہ مہینوں میں متعدد یونیورسٹی پروفیسروں ، شاعروں، مبلغین اورتاجروں کو قومی سیکورٹی کے منافی اقدام کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے کہا کہ اس اقدام سے انسانی حقوق سے متعلق اداروں کے درمیان تشویش پیدا ہو گئی ہے-

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا بیان اس کے بعد سامنے آیا کہ جب سعودی عرب میں فعال شخصیتوں کی گرفتاری کی لہر پرکینیڈا کی جانب سے تشویش کے اظہار کے بعد ریاض و اٹاوا کے تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے ہیں-

گذشتہ چند مہینوں کے دوران سعودی عرب میں انسانی حقوق اور سماجی کارکنوں اور مخالفین کے ساتھ سیکورٹی اہلکاروں کے تشدد پر مختلف ملکوں اور بین الاقوامی اداروں نے اس ملک کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے سعودی حکومت میں سرکوبی کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے- سعودی عرب میں سرکوبی کی کارروائیاں ایسے عالم میں جاری ہیں کہ سعودی ولیعھد محمد بن سلمان کہ جو ایک عرصے سے عملی طور پراس ملک کی زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں ، مغربی حکومتوں کے مطالبات اور اپنے سیاسی اہداف و مقاصد کے تحت خواتین کے حقوق و آزادی سے متعلق میدانوں میں کچھ اصلاحات انجام دی ہیں - خواتین کو ڈرائیونگ کا حق، گھر سے نکلنے اور تنہا سفر پر جانے کے امکانات ان اصلاحات اور حقوق میں شامل ہیں کہ جو سعودی خواتین کو دیے گئے ہیں- یہ مراعات و حقوق کہ جن کا سعودی خواتین ایک عرصے سے مطالبہ کررہی تھیں ایسے عالم میں دیئے گئے ہیں کہ سعودی حکومت نے ظاہری اصلاحات کے پس پشت، سماجی شخصیتوں اوران میدانوں میں فعال خواتین کی گرفتاری میں شدت پیدا کردی ہے-

اس سلسلے میں مشرق وسطی میں ہیومن رائٹس واچ کی سربراہ سارا لی ویٹسن کا کہنا ہے کہ بن سلمان کی زیرنگرانی ریاض کے حکام نے ایسے عالم میں مخالفین اور سرگرم شخصیتوں کی گرفتاری اور ان پر جھوٹے مقدمات قائم کرنے کی کارروائیاں تیز کر دی ہیں کہ گویا سعودی حکومت ماضی اور حال میں ہرطرح کی پرامن مخالفتوں کو اپنی استبدادی حکومت کے خلاف خطرہ سمجھتی ہے- سعودی عرب میں قیدیوں کی تعداد تیس ہزار سے تجاوز کرگئی ہے اور ہر دن اس ملک میں سماجی شخصیات کی گرفتاریوں اور غیرقانونی حراستوں کا دائرہ بڑھ گیا ہے-  سعودی حکام نے ایسا راستہ اختیار کر رکھا ہے کہ ایسا نظر آتا ہے کہ ان کے مغربی اتحادی بھی قانون کی خلاف ورزیوں اور انسانوں کے ابتدائی حقوق  کی پامالی پر خاموش نہیں رہ پا رہے ہیں- اس سلسلے میں یورپی پارلیمنٹ میں برطانیہ کے نمائندے چارلز تانوک کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب علاقے میں اپنے اہم بازیگر کی حیثیت سے اپنا کردار باقی رکھنا چاہتا ہے تو اس ملک کے نظام اور بین الاقوامی معاہدوں کے ساتھ ہماہنگ رہے اور ان کی پیروی کرے-

اس سلسلے میں سعودی عرب کی سرگرم سماجی و قانونی شخصیات  چاہتی ہیں کہ اس ملک میں حقیقی اصلاحات انجام پائیں اور اصلاحات کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال نہ کیا جائے- اس سلسلے میں سعودی عرب کی انسانی حقوق کی سرگرم شخصیت یحیی عسیری کا کہنا ہے کہ : اگر سعودی ولیعہد محمد بن سلمان اپنے ملک کی اچھی تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں تو انھیں حقیقی داخلی اصلاحات کا راستہ اختیار کرنا چاہئے اور سرکوبیوں کا سلسلہ ختم کرنا چاہئے-

 

 

 

ٹیگس