آستانہ مذاکرات کے تناظر میں ایران و شام کے درمیان صلاح و مشورہ
دہشت گردی کے خلاف جد و جہد میں آستانہ مذاکرات کا عمل اپنے آخری مرحلے میں پہنچ گیا ہے تاہم شام میں تعمیر نو اور سیاسی عمل کے سلسلے میں یہ عمل جاری رہے گا -
ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے منگل کی رات ایرانی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے تہران میں آستانہ عمل کے ضامن ملکوں کے سربراہوں کے اجلاس کے انعقاد کی خبر دی-
شام کے حالات حساس مرحلے میں پہنچ گئے ہیں اور اس ملک میں جنگ کے خاتمےاور قیام امن کی کوششوں کا نتیجہ جلد ہی سامنے آنے والا ہے- اس سلسلے میں ایران کا کلیدی کردار پوری طرح واضح ہے- ایران نے امریکی دباؤ کے باوجود نہ صرف یہ کی شام کی حمایت کم نہیں کی ہے بلکہ شام اور استقامتی محاذ کی ہمہ گیر حمایتیں جاری رکھنے پر تاکید کرتا ہے-
اسلامی جمہوریہ ایران آئین کی دفعہ ایک سوچوّن کے مطابق سامراج اور اس کے ایجنٹوں کے اقدامات اور پالیسیوں کے مقابلے میں مستضعفین کی حمایت اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتا ہے- ایران کے اطراف میں سیکورٹی اثرات کے لحاظ سے بھی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عراق و شام اسٹراٹیجک اور جیئو پولٹیک اعتبار سے ایران کے لئے کافی اہمیت کے حامل ہیں اور ان دونوں ملکوں کا تکفیریوں اور ان کے مغربی و عربی حامیوں کے قبضے میں جانے سے ایران اور علاقے کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا-
اس مسئلے کا استقامتی محاذ کو کمزور کرنے کے لئے علاقے میں مغرب کے نفوذ و مداخلت اوراسرائیل کی پوزیشن مضبوط بنانے کے لحاظ سے جائزہ لینا چاہئے- ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے اسی نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ادلب کی نہایت حساس صورت حال اور تہران میں آستانہ عمل کو آگے بڑھانے کے لئے سربراہی اجلاس کے انعقاد کے پیش نظر کوشش یہ ہے کہ ادلب کے حالات اور اس صوبے سے دہشتگردوں کو باہر نکالنے کے لئے کم سے کم انسانی جانوں کا نقصان ہو- اسی غرض سے شام کے اعلی حکام سے گفتگو انجام پا رہی ہے - یہ گفتگو آستانہ عمل کے ضامن ممالک کے اجلاس کے انعقاد تک جاری رہے گی-
آستانہ عمل کے ضامن ممالک کے سربراہی اجلاس میں صدر ڈاکٹر حسن روحانی ، روس کے صدر ولادیمیر پوتین اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی شرکت سے سات ستمبر کو تہران میں اجلاس منعقد ہوگا - یہ تعاون ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے- شام اور عراق کی فوجوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی مشاورتی مدد اور روس کی حمایت سے ان دونوں ملکوں میں داعش کی بساط لپیٹ کر رکھ دی ہے-
شام کے حلب اور دیرالزور اورعراق کے موصل اور تلعفر کی آزادی وہ اہم کارنامہ ہے جس نے عراق و شام میں داعش کو دیوار سے لگا دیا ہے- داعش کے خاتمے کی شکل میں حاصل ہونے والی کامیابی اس کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ فوج اورشیعہ و سنی مجاہدین پر مشتمل عوامی رضاکار فورس کی یکجہتی و استقامت کا نتیجہ رہی ہے کہ جو داعش کے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے- افکار نو تحقیقاتی مرکز کے سربراہ ڈاکٹر سعد اللہ زارعی کا کہنا ہے کہ اس وقت علاقے میں ایران مستحکم و مضبوط پوزیشن کا حامل ہے اور کوئی بھی چیز اس میں تبدیلی نہیں پیدا کرسکتی - یہ کامیابی ایران کی ذاتی ، جئوپولیٹکل اور جئو کلچرل صلاحیتوں کی بنیاد پر استوار ہونے کے ساتھ ہی اس محاذ کی بھی مرہون منت ہے کہ جس کا محور و مرکز ایران سمجھا جاتا ہے-
شام میں ایران و روس کی موجودگی اس ملک کی قانونی حکومت کی درخواست پر انجام پائی ہے اور پوری طرح جائز و قانونی ہے- لہذا اس کا فیصلہ شام کی حکومت کرے گی کہ اس ملک میں کس کو رہنا چاہئے اور کس کو جانا چاہئے-