سابق افغان مجاہدین کی صدر اشرف غنی کی کارکردگی پر تنقید
افغانستان کی قومی حکومت کے ڈپٹی ایگزیکٹیو نے اس ملک میں جنگ اور بدامنی روکنے میں اشرف غنی کے ناکارے پن پر تنقید کی ہے۔
افغان حکومت کے ڈپٹی ایگزیکٹیو محمد محقق نے افغانستان کے قومی ہیرو احمد شاہ مسعود کی برسی کے موقع پرخطاب کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ کہا کہ ملک کے سیاسی و جہادی رہنماؤں کو میدان سے باہر کرکے امن و سیکورٹی قائم نہیں ہوسکتی - اس سابق جہادی کمانڈر کا کہنا ہے کہ مخالفین سے بہادری سے لڑنا چاہئے یا صلح و امن کی کوشش کرنا چاہئے تاہم صدر اشرف غنی دونوں میدانوں میں ناکام ہوگئے ہیں- درایں اثنا افغانستان کے نائب صدر سروردانش نے تاکید کی ہے کہ اس ملک کے عوام جنگ و خونریزی سے تھک چکے ہیں - انھوں نے کابل میں احمد شاہ مسعود کی سترہویں برسی کے موقع پر منعقدہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اشرف غنی نے عام سیکورٹی اور امن و امان کی بحالی میں غفلت سے کام لیا ہے تاہم افغان سیکورٹی فورسز پر ناقص کارکردگی کا الزام نہیں لگانا چاہئے- اس میں کوئی شک نہیں کہ احمد شاہ مسعود نے اس ملک کے عوام کی سیکورٹی اور خودمختاری کے لئے اپنی جان قربان کردی اور اس وقت ان کے ساتھی مجاہدین اور افغان عوام کو توقع ہے کہ اس ملک کی قومی اتحاد حکومت بھی خودمختاری و آزادی کی راہ کے شہداء کے خون کی حفاظت کے لئے پوری طاقت سے دشمن کا مقابلہ کرے- افغانستان میں قیام امن کے بہانے اس ملک پر امریکہ و برطانیہ کا دوعشروں سے جاری قبضہ اس ملک کے عوام کے لئے اب قابل قبول نہیں ہے کیونکہ تشدد پسند اور دہشتگرد گروہ دارالحکومت کابل سمیت حساس اور اہم علاقوں میں دہشتگردانہ حملے کررہے ہیں اورعوام خاص طور سے بچوں اور عورتوں کو خاک و خون میں غلطاں کررہے ہیں - اسی بنا پر افغانستان کے سابق مجاہدین کہ جنھوں نے غاصبوں کو اس ملک سے باہر نکالنے کے لئے برسہا برس جنگ کی ہے تشدد پسند اور دہشتگرد گروہوں کے ساتھ نمٹنے میں افغان صدراشرف غنی کے بھرپورعزم کا مطالبہ کررہے ہیں- افغانستان کی ثبات و سیکورٹی کونسل کے سربراہ عبدالرب رسول سیاف نے کہا کہ غیرملکی فوجیوں کی جانب سے افغانستان میں دہشتگردانہ حملوں کی حمایت ، اس ملک میں تفرقہ انگیزی اور شیعہ و سنی ، پشتون و غیرپشتون میں جنگ چھیڑنے کی سازش کے تحت انجام پا رہی ہے- بنا بریں افغان عوام کو چاہئے کہ وہ افغانستان میں فرقہ وارانہ اور نسل پرستانہ جنگ چھیڑنے کی کوششوں کے مقابلے میں عوام کے درمیان اتحاد و یکجہتی کا تحفظ کریں اور اس ملک کی حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ دہشتگردوں سے سختی سے نمٹے -
اگرچہ صدر اشرف غنی دہشتگردوں اور تشدد پسندوں کا مقابلہ کرنے پر ہمیشہ تاکید کرتے رہے ہیں اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہیں تاہم افغانستان کی فوج کی جانب سے اپنے بنکروں کا انخلاء اور سقوط کے دہانے پر پہنچ چکے کچھ صوبوں میں فوج کو مضبوط کرنے کے بجائے بعض علاقے طالبان کودے دینے سے افغان معاشرے میں یہ منفی ذہنیت پیدا ہوئی ہے کہ اشرف غنی دیگر پشتون گروہوں کے ساتھ تعاون کر کے جغرافیا، طالبان کے حوالے کرنے اور جنگ کو اس گروہ اور ایک خاص قوم کے حق میں ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں-
افغان ممبر پارلیمنٹ عبدالرؤف انعامی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بدامنی اورعام شہریوں کے قتل کے واقعات بڑھنے کی وجہ اشرف غنی حکومت کا ناکارہ پن ہے اور سیکورٹی حکام سے جواب طلب کیا جائے اور معزول کردیا جائے - امن و سیکورٹی افغان عوام کا ابتدائی ترین مطالبہ ہے جسے فراہم کرنے میں قومی اتحاد حکومت ناکام رہی ہے - اشرف غنی کو چاہئے کہ عوام کے مطالبات پر توجہ دینے کے لئے فوری فیصلہ کریں- بہرحال افغانستان کے سابق مجاہدین اگرچہ سیکورٹی میدان میں اشرف غنی کی کارکردگی پر تنقید کررہے ہیں تاہم ہمیشہ قیام امن میں مدد کے لئے آمادگی ظاہر کرتے ہوئے تاکید کرتے رہے ہیں کہ وہ محاذ جنگ پر جانے کے لئے تیار ہیں تاکہ ماضی کی مانند افغانستان کی خودمختاری و آزادی کے لئے میدان جنگ میں اتریں لیکن افغان صدر نے ابھی تک ان کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا ہے-