عراق میں نئے صدر کا انتخاب اور نئے وزیرِ اعظم نامزد
عراقی پارلیمنٹ نے ایک آزمودہ کار کرد سیاستداں برہم صالح کو عراق کا نیا صدر منتخب کرلیا ہے۔
عراقی پارلیمنٹ نے گذشتہ روز برھم صالح کو اس ملک کا نیا صدر منتخب کرلیا اور نئے صدر نے بھی عادل عبدالمہدی کو وزیر اعظم کے طور پر نامزد کرتے ہوئے کابینہ کی تشکیل کا حکم جاری کر دیا۔ برہم صالح پٹریاٹک یونین آف کردستان کے امیدوار تھے۔ اس سے قبل عراق کے صدارتی امیدواروں میں کوئی بھی امیدوار پارلیمنٹ کے نمائندوں کی دو تہائی آراء حاصل نہیں کرسکا جس کی وجہ سے صدارتی انتخابات دوسرے مرحلے میں پہنچ گئے لیکن کردستان ڈیموکریٹ پارٹی نے دوسرے مرحلے میں اپنے امیدوارفواد حسین کو انتخاب لڑنے سے روک دیا جس کے بعد برہم صالح عراق کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔
اس سے قبل محمد الحلبوسی کو عراقی پارلیمنٹ کا نیا اسپیکر منتخب کیا گیا تھا۔ دوہزار تین سے اب تک عراق کی سیاسی پارٹیوں کے اتفاق رائے کی بنیاد پر، کرد نامزد امیدواروں میں سے صدر، اہل سنت کے نامزد امیدواروں میں سے اسپیکر اور شیعہ نامزد امیدواروں میں سے وزیر اعظم کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ عراق میں نئے صدر کا انتخاب، نئی حکومت کی تشکیل میں پہلا قدم ہے۔ اس بنیاد پرعراق کے نو منتخب صدر برہم صالح نے عادل عبدالمہدی کو عراق کی نئی کابینہ تشکیل دینے کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔ عادل عبدالمہدی ایک مہینے کے اندر اندر کابینہ تشکیل دینے اور وزراء کی معرفی کے پابند ہوں گے۔ عادل عبدالمہدی عراق کے تجربہ کار سیاستداں ہیں۔ عراق کے نئے صدر کی حیثیت سے برھم صالح کے انتخاب کی اہمیت اس میں ہے کہ وہ عراق کے قومی مفادات کو مسلکی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ برھم صالح نے، کہ جو پٹریاٹک یوینن آف کردستان کی جانب سے صدر کے عہدے کے لئے نامزد کئے گئے تھے، عراق سے کردستان کی علیحدگی کے سلسلے میں ہونے والے ریفرنڈم کی بھی حمایت نہیں کی تھی اور عراق کی ارضی سالمیت کے تحفظ پر تاکید کی تھی-
برھم صالح نے گذشتہ روز عراق کا صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے بیان میں کہا کہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے عراق کی ارضی سالمیت اور آزادی کا تحفظ کروں گا۔ عراق کے نو منتخب صدر نے کہا کہ وہ پوری عراقی قوم کے صدر ہیں اور ملک کو بحران سے نکالنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ کہا جاسکتا ہے کہ عراق کے نئے صدر کے طور پر برھم صالح کا انتخاب اس ملک میں علیحدگی پسندوں کی شکست ہے۔ نئے صدر کی حیثیت سے برھم صالح کے انتخاب کی ایک اور اہمیت بھی اس میں ہے کہ اس ملک کے عربوں کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہیں اور گزشتہ روز عراقی پارلمینٹ میں ان کو دو سو انیس ووٹوں کا ملنا بھی اسی مسئلے کی تائید ہے۔
عراق کے نئے وزیر اعظم کے طور پر عادل عبدالمہدی کا انتخاب بھی اس اہم پیغام کا حامل ہے کہ شیعہ گروہوں کے درمیان تفرقہ اور اختلافات پیدا کرنے اور اسی طرح عراق میں حشد الشعبی مخالف وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے، بیرونی عناصر کی جانب سے ڈالا جانے والا دباؤ ناکامی سے دوچار ہوگیا کیوں کہ عادل عبدالمہدی کو شیعہ گروہوں اور یا پارلیمنٹ کے سب سے بڑے دھڑے سائرون اور الفتح اتحاد نے عراق کا نیا صدر منتخب کیا ہے۔
اگرچہ عراق میں صدر، وزیر اعظم اور اسپیکر کا انتخاب عمل میں آچکا ہے اور گزشتہ مئی کے مہینے میں پارلیمانی انتخابات کے بعد سے اب تک جو تعطل برقرار تھا وہ ختم ہوچکا ہے۔ لیکن عراق کے امور میں غیرملکی مداخلتیں خاص طور پر امریکی مداخلت ختم ہونے والی نہیں ہے۔ امریکہ کی اب کوشش ہوگی کہ وہ عبدالمہدی پر دباؤ ڈال کر عراق کی نئی کابنیہ کےانتخاب کے عمل میں مداخلت کرے۔ جیسا کہ امریکی ریاست فلوریڈا کے ریپبلکن سینیٹر مارکو روبیو نے گذشتہ ہفتے عراق کی نئی حکومت میں وزیر پٹرولیم کے انتخاب میں امریکی مداخلت کا مطالبہ کیا تھا۔