افغان جنگ کو بلیک واٹر کے سپرد کرنے پر افغان نیشنل سیکورٹی کونسل کا ردعمل
افغانستان کی نیشنل سیکورٹی کونسل نے اس ملک کی جنگ کو امریکی صیہونی کمپنی بلیک واٹر کے حوالے کئے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے نتائج کی بابت خبردار کیا ہے-
اس کونسل نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ جنگ افغانستان کو پرائیوٹ سیکورٹی کمپنیوں کے سپرد کرنا قابل قبول نہیں ہے اور اس منصوبے کو پیش کرنے والوں کے خلاف قانونی جنگ لڑی جائے گی- اس بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت، دہشت گردی سے مقابلہ کر رہی ہے اور اس ملک کے عوام اور حکومت کسی طور بھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پرائیویٹیز کرکے اسے ایک سودمند تجارت میں تبدیل کردیا جائے-
افغانستان کی سیکورٹی اور دفاعی فورسز بھی قومی اقتدار اعلی، دشمنوں کے مقابلے میں افغان شہریوں کے حقوق اور ارضی سالمیت کے تحفظ کے دفاع کے لئے، لازمی صلاحیتوں سے بہرہ مند ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کے توسط سے سن 2001 سے افغانستان پر قبضہ جاری ہے اور اس دوران کئی ایک نجی سیکورٹی کمپنیاں امن وسلامتی قائم کرنے کے بہانے افغانستان میں داخل ہوئی ہیں-
بہت سے افراد کا یہ ماننا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ اور دفاع نے اس ملک کی خفیہ تنظیم سی آئی کے ہمراہ ، نجی کمپنیوں کو افغانستان میں داخل کرکے بھاری آمدنی حاصل کی ہے کیوں کہ افغانستان کی تعمیر نو کے لئے ملنے والی بین الاقوامی امداد کا ایک بڑا حصہ نجی کمپنیوں کو دیا گیا ہے، لیکن ان کمپنیوں کے متعدد جرائم مثال کے طور عوام کا قتل عام ، نجی جیلوں کا قیام اور افغان قیدیوں کو غیرقانونی صورت میں شکنجے دیا جانا اس بات کا باعث بنا کہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے نجی سیکورٹی کمپنیوں کو راہزن اور جارح قرار دیتے ہوئے افغانستان میں ان کی سرگرمیاں روکے جانے کا حکم صادر کیا تھا۔ حامدکرزئی نےان کمپنیوں کوافغانستان کے ذخائرکے لٹیروں کانام دیا تھا اورکہا تھا کہ امریکہ کی پرائیویٹ سیکورٹی کمپنیاں افغانستان کےاربوں ڈالرمالیت کے ذخائر کو برباد کررہی ہیں۔
سیکورٹی مسائل کے ماہر ولادیمیر بروٹر کہتے ہیں: افغانستان میں کسی پرائیوٹ ادارے کو، فوجی امور سپرد کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں مسلح عناصر باقی رہیں اور پھر امریکی حکام پر ان کے تعلق سے کسی قسم کی ذمہ داری نہیں ہوگی اور یہ مسئلہ افغانستان میں سیکورٹی کے حق میں نہیں ہوگا بلکہ اس سے تو افغانستان میں جرائم میں اضافہ ہی ہوگا-
امریکہ کے سابق صدر بارک اوباما کے دور صدارت میں افغان فوج کو ملک کا دفاعی اور فوجی نظام سپرد کئے جانے کے ساتھ ہی، اس ملک کے فوجیوں نے اپنے ملک میں امن و امان قائم کرنے نیز ملک کی خودمختاری اور قومی اقتدار اعلی کے دفاع کے لئے اپنی بھرپور توانائی اور عزم و ارادے کو ظاہر کیا ہے۔ اس کے باوجود امریکہ ، کہ جو افغانستان چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا ہے اس ملک میں منظم بحرانوں کو ہوا دے کر ہمیشہ اس کوشش میں ہے کہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کی موجودگی کی توجیہ کرے-
اس وقت بھی واشنگٹن اپنے فوجی اخراجات میں کمی لانے کے لئے افغان جنگ کو پرائیوٹ سیکورٹی کمپنیوں منجملہ بلیک واٹر کے سپرد کئے جانے کے درپے ہے کہ جس کے جرائم کا اس ملک اور افغانستان میں ریکارڈ ہے۔ امریکہ کی بدنام زمانہ بلیک واٹر تنظیم کا بھیانک چہرہ سب کے سامنے ہے ۔ عراق ، افغانستان اور دوسرے ملکوں میں نجی سیکورٹی اہلکاروں کے بےشمار اسکینڈل اور جرائم کی وجہ سے یہ کمپنی اپنانام تبدیل کرنے پرمجبور ہوگئی ہے۔ اس پرائیویٹ سیکورٹی کمپنی کے مالکین کے، امریکہ کے اہم سیکورٹی وفوجی اداروں سےگہرے تعلقات ہیں-
سیاسی مسائل کے ماہر بشیر بیژن کہتے ہیں: امریکہ نہ صرف افغانستان کوچھوڑنا نہیں چاہتا بلکہ علاقے میں اپنی موجودگی میں توسیع کے درپے ہے اور پرائیوٹ سیکورٹی کمپنیاں اس سلسلے میں امریکہ کا نیا ہتھکنڈہ ہیں-
بہر صورت سیاسی مبصرین کے نقطہ نگاہ سے وہ چیز جو باعث بنی ہے کہ امریکہ افغانستان کی قومی حاکمیت اور خودمختاری کی خلاف ورزی کی جسارت کر رہا ہے اور اس ملک میں سیکورٹی امور کے فیصلے کر رہا ہے، در اصل افغانستان میں باہمی اختلافات کا جاری رہنا ہے جو سیکورٹی مسائل پر بھی اثرانداز رہے ہیں۔ اس بناء پر اگرچہ افغانستان کے تمام سیاسی اور سیکورٹی ادارے اس ملک میں جنگ کو نجی سیکورٹی کمپنیوں کے سپرد کئے جانے کے مخالف ہیں لیکن ان کے درمیان باہمی اختلافات، امریکی فیصلوں پر ان کی مخالفتوں اور فیصلوں کے اثرانداز ہونے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں- اس بناء پر قومی اتحاد کی تقویت اور ساتھ ہی گروہ طالبان کی جانب سے خطرے کا احساس، ممکن ہے امریکہ کو اس سلسلے میں افغانستان سے پسپائی پر مجبور کردے-