امریکہ، افغانستان میں سب سے زیادہ ناکام ملک
افغانستان پر امریکی قبضے کے سترہ سال پورے ہونے پر ایک سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکثر افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ امریکہ افغانستان میں سب سے زیادہ ناکام رہا ہے-
واشنگٹن میں پیو ریسرچ سینٹر Pew Research Center کی جانب سے انجام پانے والے ایک سروے کے مطابق، اس میں شرکت کرنے والے نصف سے زائد افراد نے افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی کو شکست خوردہ بتایا اور امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کی کارکردگی کے تعلق سے جو اعداد وشمار اور رپورٹیں منظر عام پر آرہی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ واشنگٹن کو افغانستان میں شکست و ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔ امریکہ نے 2001 میں دہشت گردی سے مقابلے، پائیدار امن اور بقول اس کے ایک متمدن دنیا قائم کرنے کے لئے اس ملک پر حملہ کیا تھا اور اس پر قبضہ جما لیا تھا- لیکن گذشتہ نو مہینے کے دوران، دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں عام شہریوں کے قتل عام میں اضافہ ، کہ جسے اقوام متحدہ نے گذشتہ سال کی نسبت چالیس فیصد اضافہ بتایا ہے اور اس ملک میں منشیات کی پیداوار اور افغانستان کے عوام پر، قبضے سے پیدا ہونے والے تخریبی نفسیاتی اثرات، اس ملک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی سے ہونے والے نقصانات کا ایک حصہ ہیں-
ایک اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ امریکی فوج ، کہ جس نے بقول اس کے افغانستان پر حملہ اس ملک کے عوام کی نجات کے لئے کیا تھا ، خود ہی افغانستان میں بدامنی اور دہشت گردی کے اصلی عامل میں تبدیل ہوگئی ہے- افغانستان کے عام شہریوں کے تحفظ کے لئے قانونی چارہ جوئی کرنے والے گروپ سے موسوم ایک غیر سرکاری تنظیم نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ صرف ستمبر 2018 میں افغانستان کے بارہ صوبوں میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری،امریکی اور نیٹو افواج کے ہوائی حملوں کے نتیجے میں مارے گئے ہیں-
کابل یونیورسٹی کے پروفیسر نظری کہتےہیں : افغانستان میں امریکی فوج کی اسٹریٹیجی، اس ملک میں بدامنی، عدم استحکام اور دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کے جاری رہنے کا اہم ترین عامل ہے- امریکہ ، افغانستان میں فوجی موجودگی سے زیادہ ، دیگر وسیع اہداف کے حصول کے درپے ہے اسی سبب سے اس ملک میں حقیقی امن و سلامتی کا خواہاں نہیں ہے-
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی کہتے ہیں:
افغانستان کے عام شہریوں کا قتل عام واشنگٹن کی غلط اور تخریبی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اگر امریکہ جیسا کہ دعوے کرتا ہے کہ وہ افغانستان میں امن و ثبات قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے تو سوال یہ ہےکہ پھر روزانہ عام شہریوں کی ایک تعداد کا قتل کیوں ہوتا ہے اور اس ملک میں دہشت گردانہ حملوں میں آئے دن اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں جاری رہنے کی ایک اہم ترین وجہ، ان گروہوں کے مالی وسائل و ذرائع کا پائیدار باقی رہنا ہے۔ غیرملکی امداد کے علاوہ ، منشیات کی پیداوار اور اس کی اسمگلنک ان گروہوں کے مالی وسائل و ذرائع کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ ہیں اور حال ہی میں غیر قانونی کان کنی اور معدنی وسائل کی فروخت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ اور نیٹو نے گذشتہ سترہ سال کے دوران دہشت گردوں کے مالی وسائل و ذرائع ختم کرنے کے لئے نہ صرف کوئی اقدام نہیں کیا ہے بلکہ کہا جا رہا ہے کہ وہ خود بھی منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں-
روس کے سابق فوجی افسر جنرل گاریف GARIOV کہتے ہیں :
امریکہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں منشیات کی پیداوار بند ہو کیوں کہ اس کے ذریعے وہ اس ملک میں تعینات اپنے فوجیوں کے اخراجات پورے کر رہا ہے۔ منشیات کے کھیت امریکہ کے فوجی اڈوں کے پاس واقع ہیں۔ افغانستان میں منشیات کی اسمگلنگ سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو سالانہ تقریبا پچاس ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے کہ جس سے افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے مکمل اخراجات پورے کئے جاتے ہیں-
بہرصورت افغان عوام بدستور ان حالات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں کہ جو ملکی اور غیر ملکی انتہا پسند اور تشدد پسند عناصر کے تعاون سے پیدا کئے گئے ہیں اور اس وقت بھی جاری ہیں۔ جبکہ اگر گروہ طالبان افغان امن کے عمل میں شمولیت کے لئے، مختلف حلقوں کی درخواستوں کو قبول کرلے تو اس سے نہ صرف دہشت گردوں سے مقابلے کے لئے قومی اتحاد کو تقویت حاصل ہوگی بلکہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے باقی رہنے کا بہانہ بھی نہیں رہے گا۔