جنرل محمد باقری: پاکستان، ایران کے سرحدی محافظین کی رہائی کے لئے ٹھوس اقدامات کرے
ایران کی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان، ایرانی سرحدی محافظین کو اغوا کرنے والے دہشت گرد عناصر کو فوری گرفتار کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے اور ایرانی سرحدی محافظوں کو بازیاب کرائے-
ایران کے چیف آف آرمی اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سنیچر کے روز ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشترکہ سرحدوں پر سیکورٹی کے تحفظ کے لئے ایران اور پاکستان کی مسلح افواج کے درمیان طے شدہ دو طرفہ سمجھوتے کی بنیاد پر تہران کو امید ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج، ایران کے سرحدی محافظین کو اغوا کرنے والے عناصر کو گرفتار اور ایرانی سرحدی محافظین کو رہا کرانے کے لئے جلد سے جلد تمام ضروری اقدامات عمل میں لائیں گی۔ جنرل باقری نے ایران سے ملنے والی پاکستان کی سرحدوں میں امن و سلامتی کو مستحکم کرنے کے لئے پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی زیادہ سے زیادہ تعیناتی کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ دہشت گردوں اور شرپسندوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اس گفتگو میں پاکستان کے آرمی چیف نے بھی میرجاوہ کے زیروپوائنٹ پر پیش آنے والے اغوا کے واقعے پر افسوس کا اظہار اور اغوا کاروں کے تعاقب کے لئے پاکستانی فوج کے اقدامات کی وضاحت پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ جلد ہی نتیجہ نکل آئے گا اور یرغمال ایرانی سرحدی محافظوں کو رہا کرا لیا جائے گا۔ واضح رہے کہ پندرہ اکتوبر کو ایران کی میرجاوہ سرحد پر زیروپوائنٹ علاقے سے انقلاب مخالف شرپسند و دہشت گرد عناصر نے چودہ ایرانی سرحدی محافظوں کو اغوا کر کے پاکستان کے علاقے میں منتقل کر دیا۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ایرانی سرحدی محافظین کی رہائی کے لئے ضروری اقدامات عمل میں لائے جا رہے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی حکومت کو ایران کی مشترکہ سرحد پر امن قائم کرنے اور اسے تقویت کے پہنچانے کے مقصد سے مزید اقدامات انجام دینے چاہئے۔ کیوں کہ اس قسم کے واقعات کی تکرار نہ صرف ایران و پاکستان کے لئے بلکہ علاقے کی سلامتی کے بھی بہت زیادہ خطرنا ک ہے۔ پاکستان کی سرزمین سے ایران کی سرزمین پر دہشت گردانہ حملہ ایک بار پھر انجام پایا ہے۔ جبکہ اس طرح کے تلخ واقعات ایران اور پاکستان کی سرزمین پر نئے سال کے شروع میں اور اسی طرح گذشتہ سال بھی انجام پاچکے ہیں-
پاکستان کو برسوں سے ملک میں امن کے قیام میں کمزور کارکردگی یا اس کے فقدان کا سامنا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ یہ ملک فوجی اور سیکورٹی کے لحاظ سے نمایاں صلاحیتوں کا حامل ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ یہ صلاحتیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد اور ملکی سلامتی اور سرحدوں پر امن قائم کرنے کے سلسلے میں بروئے کار لائی جائیں- واضح سی بات ہے کہ پڑوسی ملکوں کے لئے سرحدی مشکلات کے خاتمے کے تعلق سے ذمہ داری قبول کرنا اورسرحدوں پر امن قائم کرنا ایک منطقی توقع ہے کہ جسے پاکستان کے سیکورٹی کے پروگراموں میں سرفہرست قرار پانا چاہئے-
سرحدوں پر دہشت گردوں اور شرپسند عناصر کی دہشت گردانہ کاروائیوں کا سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے مگر یہ کہ اس کے خلاف مسلسل اور ٹھوس اقدامات انجام دیئے جائیں- گذشتہ برسوں میں رونما ہونے والے واقعات سےاس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کی کوئی حد نہیں ہوتی - اس لئے دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے ٹھوس عزم و ارادے اور نیک نیتی کی ضرورت ہے- دہشت گردانہ کاروائیوں سے مقابلے کی ایک موثر روش ان افراد کی شناخت اور ان کو متعارف کرانا ہے کہ جو دہشت گردوں کے لئے بجٹ مختص کرتے ہیں اور دہشت گرد گروہوں کو ٹریننگ دیتے ہیں تاکہ بدامنی سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے مقاصد حاصل کرسکیں- وہ چیز جو مسلم ہے یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت کی بےعملی اور لیت و لعل کے سبب ، ایران دہشت گردانہ کاروائیوں کا نشانہ بن رہا ہے اور اسلام آباد کو اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو قبول کرنا چاہئے-
اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کی مشترکہ سرحدیں تقریبا ایک ہزار کیلو میٹر طولانی ہیں۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم 2017 میں ایک ارب تین سو چوبیس ملین ڈالر تھا- ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے شہر زاہدان سے پاکستان کے شہر کوئٹہ تک ریلوے کے ذریعے اشیاء کی برآمدات میں بھی گذشتہ سال کی نسبت چالیس فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ایسے حالات میں پڑوسی ملک ایران کے خلاف پاکستان کی سرزمین سے دہشت گردی کے تلخ و ناگوار واقعات کی تکرارسے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ ایران کی مسلح افواج کے سربراہ کا اظہار خیال اور پاکستان کی حکومت سے ایرانی حکام کی توقعات کا اسی تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے-