Oct ۲۸, ۲۰۱۸ ۱۶:۵۵ Asia/Tehran
  • استنبول اجلاس: شام کی تبدیلیوں میں موثر کردار ادا کرنے کی یورپ کی کوشش-

شام کا بحران اور اس ملک میں بدامنی کے نتیجے میں 2011 میں شروع ہونے والی جنگ اس بات کا باعث بنی کہ ترکی سمیت مغربی اور اس کے عرب اتحادی ممالک، شام میں روس سمیت مزاحمتی طاقت کے مدمقابل آجائیں اور شام ان کے درمیان جنگ کے میدان میں تبدیل ہوجائے-

دہشت گردوں کے لئے مغربی اور عربی اتحاد کی جانب سے وسیع حمایت اور کوششوں کے باوجود، شام کی قانونی حکومت کو گرانے کی ان کی کوشش ناکامی سے دوچارہوئی ہے لیکن ایران اور حزب اللہ لبنان کی شام میں موثر موجودگی، نیز ستمبر 2015 سے روسی فوج کی موجودگی، شام میں اس ملک کی فوج اور اس کے اتحادیوں کی پے درپے کامیابیوں اور شام کے بہت سے علاقوں کے دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد ہونے کا باعث بنی ہے-

شام میں اقتدار کا توازن شامی حکومت کے حق میں تبدیل ہونے اور مغربی، عربی اتحاد کی شکست کے ساتھ ہی، ترکی نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے آستانہ کے اجلاسوں میں ایران اور روس کے ساتھ سہ فریقی گروہ تشکیل دیا اور اس بات کی کوشش کی شام میں اپنے مفادات کو اسی دائرے میں بیان کرے۔ لیکن یورپی ممالک بھی کہ جو گذشتہ چند برسوں کے دوران شام میں امریکہ کا ساتھ دیتے آئے ہیں، دہشت گردوں کو ملنے والی پے درپے شکستوں کے بعد عملی طور پر شام کے بحران کو حل کرنے کے عمل سے خارج کردئے گئے ہیں- باوجودیکہ فرانس اور برطانیہ نے یورپی یونین کے دو رکن کی حیثیت سے ،2011 سے مغربی اور عربی اتحاد کے ساتھ مل کر شام کی قانونی حکومت کو گرانے میں کسی قسم کی مدد و حمایت سے دریغ نہیں کیا اورمسلح دہشت گردوں کی ہمہ جانبہ امداد پر اپنی توجہ مرکوز کی تاکہ اپنے زعم ناقص میں ان گروہوں کے ذریعے شام کی حکومت کو سرنگوں کرسکیں۔

لیکن وہ شام کی صورتحال پر بہت ہی کم اثر انداز ہوسکے - اس وقت یورپیوں کی یہ کوشش ہے کہ ایک بار پھر مشرق وسطی کے میدان میں یورپی یونین کے کردار کا احیاء کرنے کے لئے، میدان میں قدم رکھیں- ان کی اس کوشش کا روس اور ترکی نے خیرمقدم کیا ہے۔ اسی سلسلے میں ہفتے 27 اکتوبر کویورپی یونین کی دو اہم طاقت کی حیثیت سے جرمنی اور فرانس کے سربراہوں اور روس اور ترکی کے سربراہوں پر مشتمل چار فریقی اجلاس، استنبول میں منعقد ہوا- یہ اجلاس ایک بیان شائع کرنے کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوگیا- اس بیان میں آئینی کمیٹی کی تشکیل اور شام کی ارضی سالمیت کے تحفظ پر تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمنی ، فرانس اور ترکی نے بھی شام کے اقتدار سے بشار اسد کو ہٹائے جانے کے اپنے موقف سے پسپائی اختیار کرلی ہے۔ 

استنبول میں شام کے بارے میں ہونے والے چار فریقی سربراہی اجلاس میں شام کی ارضی سالمیت اور سیاسی استحکام کے ضرورت پر بھی زور دیا گیا اور اس بات پر تاکید کی گئی کہ اپنے ملک کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنا صرف اور صرف شام کے عوام کو حاصل ہے۔جرمن چانسلر اینگلا مرکل نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ شام کے عوام کو اس بات کا موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں از خود کوئی فیصلہ کر سکیں۔ 

فرانس نے بھی، کہ جو شام کی خانہ جنگی میں ملوث اہم ملک تھا، جرمنی ہی جیسا موقف اختیار کیا ہے۔ چنانچہ فرانس کے صدر عمانوئیل میکرون نے اس موقع پر کہا کہ شام کے آئندہ سیاسی نظام کا فیصلہ ہمیں نہیں کرنا بلکہ یہ کام شامی عوام کو کرنا ہو گا۔  انہوں نے کہا کہ شام میں ایک خودمختار حکومت قائم ہے اور سب کو اس حکومت کا احترام کرنا چاہیے۔ 

 ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بھی اس موقع پر کہا کہ شام کے عوام کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ بشار اسد کے مستقبل کا تعین کریں۔ یہ وہ موقف ہے جس کا روس نے، بھی شام کی قانونی حکومت کے بارے میں اعلان کیا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے کہا ہے کہ اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ صرف اور صرف شام کے عوام ہی کریں گے۔ انجیلا مرکل اور میکرون کے اس موقف کا اعلان ، یورپیوں کے موقف میں ایک بڑی پسپائی کے مترادف ہے۔ درحقیقت اس وقت انہوں نے یہ بات درک کرلی ہے کہ مشرق وسطی میں مغربی اور عرب ممالک کے توسط سے اقتدار کا توازن تبدیل کرنے کی سازش کو، مزاحمتی گروہوں کے سامنے شکست کا سامنا ہوا ہے۔ اس لئے شام کی تعمیر نو کے مسائل کے پیش نظر یورپی ملکوں کا فائدہ اس میں ہے کہ وہ  روس  کے موقف سے ہم آہنگ ہوکر، شام میں بشار اسد کی حکومت کے قانونی ہونے پر تاکید کریں-           

ٹیگس