Nov ۰۸, ۲۰۱۸ ۱۹:۲۹ Asia/Tehran
  • ایران کے مکمل بائیکاٹ سے ٹرمپ کی ناتوانی اور بہانہ تراشی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا ایٹمی معاہدے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پابندیاں عائد کرنے کے ذریعے تہران کو واشنگٹن کے مطالبات کے سامنے جھکنے پر پر مجبور کردیں گے-

چنانچہ ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے خلاف دو مرحلے میں پابندیوں کا اعلان کیا تھا کہ جس کے پہلے مرحلے پر اگست 2018 میں عملدرآمد شروع ہوا اور پھر اس وقت، یعنی پانچ نومبر 2018 سے ایران پر دباؤ بڑھانے کے لئے دوسرے مرحلے میں ایٹمی پابندیوں کا آغاز ہوچکا ہے- امریکہ کی نئی پابندیوں میں اہم ترین مسئلہ ایران کے تیل کا مکمل بائیکاٹ کرنا ہے۔ واشنگٹن نے پہلے بھی یہ دعوی کیا تھا کہ پانچ نومبر سے عائد کی جانے والی پابندیوں سے اس کا مقصد ایران کے تیل کی برآمدات کو صفر تک پہنچانا ہے۔ لیکن ان پابندیوں کے اعلان کے چند روز قبل ہی ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ان پابندیوں سے آٹھ ممالک مستثنی قرار دیئے گئے ہیں اور یہ ممالک ایران کے ساتھ تیل کی برآمدات کو جاری رکھ سکتے ہیں- 

امریکی حکومت کی اس آشکارہ پسپائی پر بہت زیادہ ردعمل سامنے آیا ، اور ذرائع ابلاغ اور تجزیہ نگاروں نے واشنگٹن کے اس اقدام کو، ایران کے خلاف ٹرمپ حکومت کی گیڈر بھبکیوں سے تعبیر کیا ہے۔ اس شکست فاش کے پیش نظر امریکہ کے سینئر حکام نے اپنی مزید آبروریزی  نہ ہونے کے مقصد سے اس کی توجیہ بیان کرنا شروع کردی چنانچہ اسی سلسلے میں ٹرمپ نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں، پانچ نومبر سے ایران کے خلاف تیل کے بائیکاٹ اور اس پابندی سے آٹھ ملکوں کو مستثنی کرنے کے اپنے فیصلے کے بارے میں اور ایران مخالف پابندیوں کی شکست پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تیل کی عالمی منڈیوں میں قیمتوں کو کم رکھنے کی غرض سے ایران کے تیل پر بتدریج پابندیاں عائد کریں گے۔

ٹرمپ کا یہ اعتراف دو چیز کی علامت ہے۔ اول تو یہ کہ بنیادی طور پر امریکہ میں فیصلہ کرنے والے جو سینئر حکام ہیں، ان میں اتنی دور اندیشی نہیں پائی جاتی کہ ایران کے تیل کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے وقت اس جانب توجہ نہیں کی تھی کہ اس سے عالمی منڈیوں میں اور خود امریکہ میں تیل کی قیمت کتنی بڑھ جائے گی اور امریکہ میں پٹرول کی قیمت کہاں پہنچے گی۔ لیکن بعد میں متوجہ ہوگئے کہ یہ چیز ٹرمپ حکومت کے لئے ایک بہت بڑا نقص شمار ہوگی کہ ان کے اقدامات اور فیصلے ، تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھے بغیر انجام دیئے جاتے ہیں اس لئے وہ اپنی صفائی پر اتر آئے-

دوسری جانب امریکہ کی اس پسپائی ، اور ایران کا تیل خریدنے والے آٹھ اہم ملکوں کو اس پابندی سے معاف رکھے جانے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی خودسرانہ اور ہٹ دھرمانہ پالیسیوں اور فیصلوں کے مقابلے میں دنیا کے بعض ملکوں نے مزاحمت و استقامت کا مظاہرہ کیا ہے یہ وہ ممالک ہیں  جو ایران کے تیل کا بائیکاٹ کئے جانے کو اپنی مصلحتوں اور مفادات کے برخلاف سمجھتے ہیں اور وہ امریکی اہداف اور مفادات پر اپنے اہداف و مفادات کو قربان کرنے پر تیار نہیں ہیں اور واشنگٹن کی غیر عاقلانہ اور یکطرفہ پابندیوں کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ جیسا کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اپنے واضح موقف میں اعلان کیا ہے کہ انقرہ ایران کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیوں کو نہیں مانتا۔ 

اس وقت ٹرمپ کہ جنہیں مڈٹرم انتخابات میں، امریکی ایوان نمائندگان میں ڈموکریٹ کی کامیابی کے سبب بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اس وقت یہ باورکرانے کی کوشش میں ہیں کہ انہوں نے آٹھ ملکوں کو ایران کے ساتھ تیل کی تجارت سے معاف کرنے کا جو اقدام کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ تیل کی عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھ جائیں اور پھر یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس طرح سے وہ اپنی پالسیوں اور اقدامات کے خلاف، ڈموکریٹس کی بڑھتی ہوئی تنقیدوں پر بھی لگام لگا سکیں-  

درحقیقت ایران کے تیل کے بائیکاٹ کا اعلان اور تیل کی منڈیوں میں تیل کی کمی اس بات کا باعث بنی ہے کہ گذشتہ چند مہینوں کے دوران تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور ان پابندیوں کا فوری اثر یہ دیکھنے میں آیا ہے امریکہ میں پٹرول کی قمیت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور یہ مسئلہ ٹرمپ انتظامیہ سے ڈموکریٹ کی ناراضگی بڑھنے کا بھی سبب بنا ہے- بہرحال ترکی اور چین جیسے ممالک ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھنے پر تاکید کر رہے ہیں اور ایسا خیال نہیں کیا جاتا کہ امریکہ کی پابندیاں بھی ان ملکوں کو اپنے فیصلے سے باز رکھ سکیں گی-

ٹیگس