ایران کی جانب سےایٹمی معاہدے کی مکمل پابندی پر، آئی اے ای اے کی ایک بار پھر تاکید
جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای نے بارہویں مرتبہ ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی پابندی کئے جانے کی تصدیق کی ہے جس کے بعد یورپی ملکوں کے ذریعے ایٹمی معاہدے کے تحفظ اور تہران کے ساتھ اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات جاری رہنے کی کوششوں میں شدت آگئی ہے۔
جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے ڈائرکٹر جنرل نے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تہترویں اجلاس میں ایک بار پھر تائید کی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ایٹمی معاہدے کی پابندی کی ہے اور ایران اس معاہدے کی بنیاد پر اپنے ایٹمی وعدوں پر عمل پیرا ہے۔ در ایں اثنا یورپی یونین کی ترجمان مایا کوتسیانچیچ نے بھی کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے اور ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لئے یورپی یونین نے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے حکام کی کوششیں، خاص طور پر نئے مالیاتی نظام ایس پی وی کے قیام پر مرکوز ہوگئی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کو نکالنے کے بعد، امریکی مفادات کی تکمیل کے لئے اپنی یکطرفہ پالیسیوں کے نفاذ پر تاکید کی ہے تو یورپی حکام نے بھی کثیرالجہتی پالیسیوں اور خودمختاری کے تحفظ پر تاکید کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے طریقہ کار تلاش کرنے اور ایران کے ساتھ سیاسی و تجارتی تعلقات جاری رکھنے پر زور دیا ہے- یورپی حکام کے نقطہ نگاہ سے ایران کے خلاف امریکی اقدامات اور پابندیوں کا دوباہ عائد کیا جانا غلط اور واشنگٹن کے اتحادی ملکوں کے نقطہ نگاہ کے برخلاف ہے کہ جس سے علاقے میں کشیدگی میں شدت پیدا ہوئی ہے۔ یورپی ملکوں نے اسی طرح کہا ہے کہ واشنگٹن ایران کے خلاف ایک بار پھر پابندیاں عائد کرکے منھ زوری کا مظاہرہ کر رہاہے اور عالمی سطح پر تجارت اور مالی امور کے شعبے میں اپنی پوزیشن سے غلط فائدہ اٹھا رہا ہے۔
یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک نے اس امر پر تاکید کرتے ہوئے کہ واشنگٹن عالمی اداروں اور خودمختار ملکوں پر اپنے فیصلے نہیں تھوپ سکتا ہے، کہا کہ یورپ دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر ایٹمی معاہدے کا تحفظ کرتا رہے گا- یورپی یونین کو ایٹمی معاہدے سے علیحدہ کرنے میں امریکہ کی ناکامی کے بعد امریکی وزارت خارجہ کے ایران ایکشن گروپ کے سربراہ برائن ہک نے بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ امریکہ، یورپی یونین کو ایٹمی معاہدے سے الگ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا، کہا ہے کہ ایمٹی معاہدے سے علیحدگی کا فیصلہ امریکہ کا اپنا فیصلہ ہے جو اس نے خود اپنے لئےکیاہے۔
ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے دوسرے مرحلے کے آغاز کو تقریبا ایک ہفتے کا عرصہ گذر رہا ہے اور اس دوران یورپی ملکوں کی جانب سے ایران کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات خاص طور پرمالیاتی نظام ایس پی وی کے قیام کے لئے جاری کوششوں میں تیزی آگئی ہے- خاص طور پر ایسے میں کہ جب جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے ڈائرکٹر جنرل یوکیا آمانو نے بھی ایک بار پھر ایٹمی معاہدے پر ایران کے کاربند رہنے پر تاکید کی ہے۔ یورپ کے نئے مالیاتی نظام ایس پی وی کے عملی ہونے کی صورت میں ، ایران کے سلسلے میں یورپی یونین اپنے وعدوں کی تکمیل کی راہ میں ایک اہم قدم اٹھائے گی-
سوئیفٹ کی جگہ اس نئے یورپی مالی نظام کے قیام کی صورت میں امریکہ ٹانگ نہیں اڑا سکے گا- بالفاظ دیگر امریکی ڈالر کی اس مالی سسٹم میں کوئی جگہ نہیں ہوگی اور مالی ادائیگیاں یورو میں انجام پائیں گی تاکہ ایران کے ساتھ ڈالر میں تجارت اور لین دین کرنے والے ممالک امریکی پابندیوں میں شامل نہ ہوں۔ امریکی حکام کی کوشش ہے کہ اس مالی سسٹم کے آغاز کے ساتھ ہی، ایٹمی معاہدے کے تعلق سے ایران کی رضامندی حاصل کرتے ہوئے ایران کے مطالبات کو پورا کریں- ایٹمی معاہدے کے تحفظ اورایران کے مطالبات کی تکمیل پر یورپی حکام کے اصرار اور اس پر قائم رہنے سے، واشنگٹن کے حکام کا غم وغصہ بھڑک اٹھا ہے کیوں کہ ان کو توقع تھی کہ یورپی حکام ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے میں اس کا ساتھ دیں گے-
امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیؤ نے بھی ایران کے ساتھ مالی ٹرانزیکشن سسٹم کے قیام کے لئے چار جمع ایک کی کوششوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چار جمع ایک کا اقدام مایوس کن ہے۔ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے خلاف ورزیوں اور دھمکیوں کے باوجود، ایران کے خلاف پابندیاں اب تک نہ صرف اثرانداز نہیں رہی ہیں بلکہ ایٹمی معاہدے کی حفاظت کے لئے ایران کے یورپی اتحادیوں کے عزم کو بھی دوبالا کردیا ہے۔ ایٹمی معاہدے کی یورپی ملکوں کی جانب سے حمایت جاری رہنے اور اس کی حفاظت کی کوششوں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ایٹمی معاہدہ ایک قانونی معاہدہ ہے اور ایران نے اس معاہدے کے تعلق سے اپنے وعدوں پر جوعمل کیا ہے، اس لحاظ سے وہ ایک ذمہ دار ، اور قابل اعتماد شریک ہے-