ایران، امریکہ سے کوئی معاہدہ نہیں کرے گا : جواد ظریف
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ایران کے ساتھ ایک بار پھر ایٹمی مذاکرات کی امریکی کوششوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی معاہدہ ایک اچھا معاہدہ ہے اور ایران ایک بار پھر اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی معاہدہ نہیں کرے گا-
ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اٹلی کے دارالحکومت روم میں میڈیٹرین ڈائیلاگ فورم سے خطاب میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ڈپلومیسی کوئی کھیل نہیں ہے کہا کہ سب انھیں مذاکرات اور تعاون کے حامی کے طور پر جانتے ہیں لیکن جہاں ایران کی خودمختاری اور سالمیت کی بات ہو تو وہ ملکی خودمختاری کے ساتھ کھڑے ہوں گے-
ایران کے وزیر خارجہ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ تہران کسی کے دباؤ میں نہیں آئے گا اجلاس کے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے یہ استفسار کیا کہ ایران کیوں اپنی علاقائی پالیسی تبدیل کرے؟ کیا ہم نے صدام کی حمایت کی؟ کیا ہم نے داعش، طالبان یا النصرہ فرنٹ کی پشت پناہی کی؟ کیا ہم نائن الیون واقعے کے ذمے دار ہیں؟ کیا ہم نے قطر پر پابندیاں لگائیں؟ کیا ہم یمنی عوام پر بمباری کررہے ہیں؟ کیا ہم نے کسی ملک کے وزیراعظم کو اپنی سرزمین میں قید میں رکھا؟ ایران نے غلطی کی یا دوسرے لوگوں نے؟ اس لئے در حقیقت ان لوگوں کو چاہئے کہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے خطے سے متعلق اپنے رویے میں تبدیلی لائیں، ہم کیوں اپنی پالیسی تبدیل کریں؟.- محمد جواد ظریف نے کہا کہ ایران نے دوسرے ملکوں سے مل کر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کئے تھے جس کے بعد اچھے نتائج برآمد ہوئے لہذا آج یورپ اور باقی ملکوں کو چاہئے کہ اپنی کوششوں اور عالمی سلامتی کے لئے سرمایہ کاری اور اخراجات برداشت کریں - اٹلی کے دارالحکومت روم میں جاری اس اجلاس میں ، جس میں 56 ممالک کے اعلی حکام اور نمائندے شریک ہیں، اس موقع پر ایرانی قوم کے خلاف امریکی پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے جواد ظریف نے بتایا کہ ایران گزشتہ 40 سال سے نہیں بلکہ 7 ہزار سال سے اپنے پیروں پر کھڑا ہے اور آئندہ بھی حالات کا سامنا کرتا رہے گا-انہوں نے مزید کہا کہ بعض دعویدار ممالک کے مقابلے میں ایران اور اٹلی کی بادشاہت کی تاریخ زیادہ پرانی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم جبر کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہاں کوئی بھی طاقت مستقل نہیں ہوتی-
واضح رہے کہ ایٹمی معاہدہ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان بارہ سالہ مذاکرات کا نتیجہ ہے- اس وقت جب یہ معاہدہ ہوا تھا امریکہ کے صدر باراک اوباما تھے لیکن ان کے بعد امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، آٹھ مئی 2018 کو اس معاہدے سے نکل جانے کا اعلان کردیا- اس کے باوجود ایران بدستور ایٹمی معاہدے پر باقی ہے اور اس پر کاربند بھی ہے اور یورپی ممالک نے بھی اب تک اس معاہدے کی حمایت کی ہے اور یہ ممالک امریکہ کے بغیر ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے باقی رہنے کے تعلق سے ایران کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں- یہ تعاون امریکہ کی یکطرفہ پالیسی کو مسترد کرنے کے مترادف ہے۔ ٹرمپ ، وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے ساتھ ہی فرسٹ امریکہ کا نعرہ لگاتے ہوئے بہت سے بین الاقوامی معاہدوں منجملہ پیرس کے ماحولیاتی معاہدے اور ایران کے ایٹمی معاہدے سے نکل گئے- امریکہ کا یہ رویہ، اس کی خودسرانہ پالیسیوں اور یکطرفہ اقدامات کا نتیجہ ہے کہ جس نے متعدد عالمی اور چند جانبہ معاہدوں اور تعاون کو خطرے سے دوچار کردیا ہے- عالمی مسائل کے ماہر "حسین موسویان" کہتے ہیں کہ علاقے میں امریکہ کی طاقت روبہ زوال ہے اور نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں وائٹ ہاؤس کی موجودہ ٹیم ، امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں کو دوبارہ مستحکم کرنے کے درپے ہے۔ امریکہ کے سرگرم سیاسی کارکن "مایلز ہانیک" کا بھی امریکہ کی تخریبی پالیسیوں کے بارے میں کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یکطرفہ پالیسی، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہے اور یہ اقدامات جنگ بھڑکنے اور انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی کا سبب بنے ہیں-
ایٹمی معاہدہ عالمی سطح پر باہمی اور تعمیری تعاون کے لئے بہترین آئیڈیل ہے۔ لیکن ٹرمپ نے 2016 میں اپنے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران بھی اور پھر وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد بھی اس معاہدے کو بدترین معاہدہ قرار دیا- ٹرمپ، ایران پر مزید دباؤ بڑھانے کے مقصد سے ایٹمی معاہدے سے نکل گئے اور اب وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں دوبارہ مذاکرات کی بات کر رہے ہیں- اور ٹرمپ نے اسی خام خیالی میں بارہا یہ بھی کہا ہے کہ ایک دن ایرانی مجبور ہوکر مذاکرات کی میز پر آئیں گے- لیکن ایران کے وزیر خارجہ نے جمعرات کو دوٹوک الفاظ میں ٹرمپ کو یہ واضح پیغام دے دیا کہ وہ ایران کے پر امن ایٹمی پروگرام کے بارے میں امریکہ کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں کریں گے-
محمد جواد ظریف نے کہا کہ ایران نے امریکہ سے مذاکرات کرنے کی درخواست نہیں دی اورمستقبل میں بھی اس قسم کی درخواست نہیں کی جائےگی ۔انہوں نے ایران کے خلاف امریکی حکومت کے حالیہ اقدامات پر کہا کہ اس قسم کے اقدامات سے شاید ڈونالڈ ٹرمپ کا مقصد ایران کو جوہری معاہدے سے منصرف کرنا ہو۔
بہرحال ان حالات میں امریکہ، ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کرکے ان لوگوں کے جرائم کی پردہ پوشی کر رہا ہے جو فلسطین ، یمن اور دیگر علاقوں میں نہتے اور مظلوم عوام کو آئے دن خاک و خون غلطاں کر رہے ہیں- ان حقائق کے پیش نظر علاقے میں جسے اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہئے وہ ایران نہیں بلکہ وہ ممالک ہیں جو کسی آزاد و خودمختار ملک کے وزیر اعظم کو اغوا کر لیتے ہیں، یا کسی دوسرے ملک میں اپنے سفارتخانے کے اندر، اپنے ہی شہری کو بہیمانہ طریقے سے قتل کردیتے ہیں-