Nov ۲۸, ۲۰۱۸ ۱۶:۰۰ Asia/Tehran
  •  تین ہزار پاکستانی سعودی جیلوں میں

پاکستان کے صوبہ پختونخواہ کے سابق وزیر عنایت اللہ خان نے کہا ہے کہ تین ہزار تین سو نو پاکستانی شہری سعودی جیلوں میں ہیں اور اکثر کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے-

عنایت اللہ خان نے اس خبر کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی بعض پاکستانی قیدیوں کی سعودی حکام کے برے رویے اور تشدد کی بنا پر خودکشی کی بھی خبر دی ہے - پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ان اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہوئے سعودی عرب میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ اور متحدہ عرب امارات  کی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد دوہزارچھے سو سے زیادہ اعلان کی تھی- حالیہ برسوں میں پاکستانی شہری کہ جو سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتے ہیں ، متعدد قسم کے مسائل و مشکلات سے دوچار ہیں جن میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے - سعودی عرب میں پاکستانی محنت کشوں کو ان کے کفیلوں کی جانب سے تنخواہیں ادا نہ کئے جانے، جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے اور دھونس و دھمکی کے ذریعے منھ بند کرنے پر مجبور کرنے جیسے مسائل کاسامنا ہے - اگرچہ حکومت پاکستان نے سعودی کفیلوں کے برے رویے پر احتجاج کیا ہے لیکن سعودی حکومت کی جانب سے پاکستانی حکومت اور سیاسی پارٹیوں کی مالی مدد اس بات کا باعث ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا سختی سے نوٹس نہیں لیتی اور سعودی حکومت کے ساتھ اپنے تحفظات کو کشیدگی و چیلنج پرترجیح دیتی ہے-

انسانی حقوق کے عالمی ادارے کی محقق اور تجزیہ نگار دینا المامون کا کہنا ہے کہ : سعودی عرب میں جارحیت اور جنسی تشدد کا نشانہ بننے والوں کو یہ خوف و خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ کہیں ان پر زنا کا الزام نہ عائد کردیا جائے - سعودی عرب میں غیرملکی محنت کشوں کو یہ خطرہ  ہے کہ عدالت کا سامنا کرنے کی صورت میں ان کے پاس کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا کیونکہ بہت سی عدالتوں میں مقدمے کی کارروائیاں عربی زبان میں انجام پاتی ہیں اور انھیں عدالتی عمل کا کچھ پتہ نہیں ہوتا اور اکثر انھیں مترجم ، وکیل اور قونصلیٹ کی خدمات بھی حاصل نہیں ہوتیں-

پاکستان کی سابق حکومت کے دور میں نواز شریف خاندان کے آل سعود حکومت کے ساتھ نہایت قریبی تعلقات کی بنا پر پاکستانی محنت کشوں کے ساتھ عرب کفیلوں کے جرائم و مظالم کو چھپایا جاتا تھا-اور اس وقت بھی کہ جب پاکستان میں عمران خان کی حکومت ہے ، سعودی حکومت کے بھاری بھرکم امدادی وعدوں کے پیش نظر بعید نظر آتا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے وہ ردعمل سامنے آئے گا جس کی سعودی عرب میں کام کرنے والے محنت کشوں اور ان کے مزدوروں کو توقع ہے-

سعودی عرب میں پاکستان سمیت مختلف ملکوں کی دسیوں محنت کش خواتین کو سزائے موت کا خطرہ ہے جبکہ غیرملکی محنت کشوں کے ساتھ سعودی حکومت کے رویے پر عالمی احتجاجات کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے لیکن سعودی حکومت ان احتجاجات پر کوئی توجہ نہیں دیتی - غیرملکی محنت کشوں کو اذیت پہنچانے کا سلسلہ صرف پاکستانی محنت کشوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ انڈونیشیا، فلپائن اور سری لنکا سمیت بہت سے ممالک کے محنت کشوں کے ساتھ  سعودی کفیلوں کی بدسلوکی روز مرہ کا معمول بن چکی ہے- بہرحال عمران خان کی حکومت کو کہ جو پاکستان میں شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور بدعنوانی کے مقابلے کے وعدے سے برسراقتدار آئی تھی ، سو دن گذرنے کے بعد بھی متعدد مسائل منجملہ سعودی عرب میں مشغول پاکستانی شہریوں کے حقوق کے دفاع کے مسئلے کا سامنا ہے-

پاکستان کے عوام کو توقع ہے کہ ان کی حکومت سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں تحفظات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے محنت کشوں کے حقوق  کا دفاع کرے گی اور ان کی حیثیت و وقار کو سعودی حکام کے امدادی وعدوں پرقربان نہیں کرے گی کیونکہ اگر پاکستانی حکومت نے محنت کشوں کے مفادات کو بھینٹ چڑھایا  تو پاکستانی عوام کے اندر نہایت بری ذہنیت پیدا ہوسکتی ہے- پاکستانی وزیرخارجہ کی جانب سے سعودی عرب میں پاکستانی قیدیوں  کے مسائل و مشکلات کے حل کے لئے کوئی اقدام انجام دیئے بغیر قیدیوں کی تعداد کی تصدیق پاکستانی شہریوں کے حقوق کے تحفظ میں تحریک انصاف کی طاقت و صلاحیت پر سوال کھڑے کر سکتی ہے- 

ٹیگس