ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کے لئے، ایران اور یورپ کے درمیان تبادلۂ خیال
ایران اور یورپ کے حکام کے درمیان ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے لئے ویانا اور جنیوا میں مذاکرات ان دنوں اپنے عروج پر ہیں-
یورپی یونین کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی بارہا حمایت کے باوجود ، ایران ، یورپی ملکوں کی کوششوں کو کافی نہیں سمجھتا ہے- ایران نے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کو باقی رکھے جانے کے مقصد سے یورپی ملکوں کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں ایک میکانزم تیار کریں اور ایران کے اقتصادی مفادات کی تکمیل کریں اور اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یورپ اسے انجام دینے سے قاصر ہے تو پھر ایران، ایٹمی معاہدے سے قبل کے دور کی جانب واپس لوٹ جائے گا اور دوبارہ سے بیس فیصدی یورینیم کی افزودگی کا عمل شروع کردے گا- چنانچہ اسی سلسلے میں جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی کے سربراہ ڈاکٹر علی اکبر صالحی نے بریسلز میں، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی کی موجودگی میں یہ بات ان کے گوش گذار کردی ہے-
دونوں عہدیداروں نے ایٹمی معاہدے سے متعلق تازہ ترین صورت حال کا بھی جائزہ لیا اور اس معاہدے کے مکمل نفاذ کے لئے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔علی اکبر صالحی اور فیڈریکا موگرینی نے اس ملاقات میں ایران مخالف غیرقانونی امریکی پابندیوں بالخصوص نیوکلیئر سیفٹی نظام اور ادویات کی صنعت پر عائد پابندیوں پر تبادلہ خیال کیا اور انھیں ناقابل قبول قرار دیا۔ اس سے پہلے ایران کے ایٹمی توانائی ادارے کے سربراہ نے کہا تھا کہ جوہری معاہدے کے تحفظ کے لئے یورپی یونین کے پاس بہت کم وقت بچا ہے اور ایرانی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے۔
ڈاکٹر علی اکبر صالحی نے بدھ کے روز ویانا میں بھی ایٹمی معاہدے کے تعلق سے مذاکرات جاری رکھے اور جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے ڈائرکٹر جنرل یوکیا آمانو سے ملاقات اور گفتگو کی-
یورپی یورنین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے بدھ کے روز جنیوا میں ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے ساتھ ملاقات میں ایک بار پھر ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے لئے یورپی یونین کے پرعزم ہونے پر تاکید کی-
یورپی کمیشن کے سربراہ جان کلوڈ یونکر نے بھی بدھ کے روز کہا کہ ایسی حالت میں کہ جب امریکہ یکطرفہ طور پر ایٹمی معاہدے سے نکل گیا ہے اور ایران کے خلاف ایک بار پھر پابندیاں عائد کردی ہیں ، یورپ کو چاہئے کہ وہ ایٹمی معاہدے کا تحفظ کرے۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھی پیرس میں اپنے فرانسیسی ہم منصب ژان ایو لیدریان کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے جوہری معاہدے میں شامل تمام فریقوں کو اس معاہدے کے نفاذ کے لئے اپنے وعدوں پر قائم رہنا چاہئیے۔ روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ جوہری معاہدے کے فریقین کو موثر اقدامات اٹھانا ہوں گے تا کہ یہ معاہدہ امریکہ کی یکطرفہ اور غیرقانونی علیحدگی اور ایران مخالف دھمکیوں کی وجہ سے ختم نہ ہو-
یورپی یونین کی جانب سے مالی میکنزم کہ جو ایس پی وی سے موسوم ہے ، اس سے ایران کا تجارتی لین دین، امریکی ڈالر کے بغیر انجام پائے گا- تاہم اس کے بارے میں بہت زیادہ مسائل ہیں اور یہ میکنزم ابھی تک اپنے حتمی مراحل تک نہیں پہنچا ہے-
اسلامی جمہوریہ ایران کے سینیئر ایٹمی مذاکرات کار اور نائب وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ اس وقت ایٹمی معاہدہ مستحکم نہیں ہے اور سب کچھ یورپی ملکوں کے عزم و ارادے پر منحصر ہے۔ ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کے تعلق سے یورپ نے جو وعدے کئے تھے اس نے ابھی تک پورے نہیں کئے اور ایسے میں ایٹمی معاہدے میں ایران کو باقی رکھنا یورپ کے لئے مشکل ہوجائے گا-
ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ علی اکبر صالحی نے بھی روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایران کو ایٹمی معاہدے کے اقتصادی فوائد حاصل نہیں ہوئے تو اسلامی جمہوریہ ایران بیس فیصدی یورینیم کی افزودگی کا عمل دوبارہ شروع کردے گا-
ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد ایران ، امریکی پالیسی کو ناکام بنانے کے لئے فورا اس معاہدے سے نکل نہیں گیا بلکہ اس نے نیک نیتی کے تسلسل کے دائرے میں یورپی ملکوں کو ایک مختصر مدت کے لئے یہ موقع دیا تاکہ وہ امریکہ کے بغیر ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کے طریقہ کار کے بارے میں غور و فکر کرے- اب اس مدت کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے اور یورپی یونین کے لئے یہ سخت مرحلہ ہے کہ وہ امریکہ کے بغیر، خود مستقل طور پر کوئی تاریخی فیصلہ کرے- اگر یورپی یونین اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں کرپاتا ہے تو پھر ایران پورے اطمئنان خاطر کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے پہلے والی حالت پر پلٹ جائے گا اور بیس فیصد یورینیم کی افزودگی کا عمل دوبارہ شروع کردے گا اور اس درمیان ہار صرف یورپ کی ہوگی-