شام کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی پالیسی ناکام ہونے کا امریکی اعتراف
شام میں 2011 میں بدامنی پھیلنے کے بعد اس ملک میں بحران اور داخلی جنگ کا جو آغاز ہوا، اس بات کا باعث بنا کہ یہ عرب ملک، مزاحمتی محور اور روس کے ساتھ، مغربی ملکوں اور ان کے عرب اتحادیوں کی جنگ کے میدان میں تبدیل ہوجائے-
شام کی قانونی حکومت کو گرانے کے مقصد سے مغربی اور عرب اتحاد کے ذریعے دہشت گردوں کی حمایت کی وسیع تر کوششوں کے باوجود، شام میں ایران ، حزب اللہ لبنان اور ستمبر 2015 سے روسی فوجیوں کی موثر موجودگی اس بات کا باعث بنی کہ شام کی فوج اور اس کے اتحادی، شام کے بہت سے علاقوں کو دہشت گردوں سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوگئے-
مغربی ملکوں کے سرغنہ کی حیثیت سے امریکہ نے برطانیہ اور فرانس نیز اپنے عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام کی قانونی حکومت کو سرنگوں کرنے اور مزاحمتی محور کو نیست و نابود کرنے کے مقصد سے دہشت گردوں کی ہمہ جانبہ حمایت پر اپنی توجہ مرکوز کردی اور ان کو کسی بھی قسم کا ہتھیار دینے سے دریغ نہیں کیا تاکہ اپنے زعم ناقص میں، شام کی بشار اسد کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی اپنی آرزو حاصل کرلیں تاہم ابھی تک وہ ذرہ برابر بھی شام کی حکومت پر اثرانداز نہیں ہوسکے ہیں-
درحقیقت واشنگٹن اور اس کے یورپی اورعرب اتحادی، اس وقت شام کے بارے میں اپنے منصوبوں خاص طور پر مغرب پسند حکومت کے برسر اقتدار آنے کے منصوبے کو نقش بر آب دیکھ رہے ہیں اور شام کے بحران کے حل کے لئے سیاسی راہ حل تلاش کرنے کے مقصد سے روس ، ایران اور ترکی کی جدت عمل کے ساتھ ہی، آستانہ اجلاسوں کو مرکزیت حاصل ہوگئی اورمغرب عملی طور پر اس ملک کی صورتحال میں ایک جزوی بازیگر میں تبدیل ہوگیا ہے- یہی مسئلہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ امریکہ نے کہ جو شام میں داخلی جنگ بھڑکانے اور اس کی توسیع میں اہم کردار کا حامل تھا، اس وقت آشکارہ طور پر اپنا موقف تبدیل کرچکا ہے
اسی سلسلے میں شام کے امور میں امریکہ کے خصوصی نمائندے جیمز جیفری نے اعتراف کیا ہے کہ واشنگٹن اب شام کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے درپے نہیں ہے- جیفری نے واشنگٹن میں تھنک ٹینک دی اٹلانٹک کونسل کے ایک اجلاس میں کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایک ایسی حکومت کا مشاہدہ کریں کہ جو بنیادی طور پر مختلف ہو لیکن اس کا مطلب حکومت کو تبدیل کرنا نہیں ہے- ہم بشار اسد کی حکومت کا تختہ پلٹنا نہیں چاہتے ہیں-
درحقیقت شام کے امور میں اس امریکی نمائندے نے ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، دمشق کی قانونی حکومت کی تبدیلی کے تعلق سے واشنگٹن کی شکست کی جانب اشارہ کیا ہے- اس کے باوجود شام کے سلسلے میں امریکہ کا دشمنانہ رویہ بدستور قائم ہے اور اس بارے میں ٹرمپ حکومت نے صراحتا، شام کی تعمیر نو میں کردار ادا کرنے کو، شام کی حکومت کی پالیسیوں میں تبدیلی سے مشروط کردیا ہے- اس کے معنی یہ ہیں کہ واشنگٹن یہ چاہتا ہے کہ شام کے صدر بشار اسد مزاحمتی محور سے دوری اختیار کرکے مغرب کے بااثر دائرے میں داخل ہوجائیں، جبکہ دمشق کو یہ بات ہرگز تسلیم نہیں ہے-
جیمز جیفری اس سلسلے میں کہتے ہیں: مغربی ممالک نے پختہ عزم کیا ہے کہ وہ شام کی تعمیرنو میں حصہ نہ لیں اور کچھ بھی خرچ نہ کریں مگر یہ کہ وہ اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ دمشق کی حکومت مصالحت کے لئے حاضر ہے اور آئندہ وہ اس طرح کا بحران کھڑا نہیں کرے گی- ایک اور مسئلہ کہ جو امریکہ اسرائیلی مفادات میں کرنا چاہتا ہے، شام سے ایران کے فوجی مشیروں کے نکل جانے کا مطالبہ ہے - اگرچہ اس سلسلے میں واشنگٹن نے اپنے سابقہ موقف سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کرلیا ہے کہ وہ شام میں ایران کے اثر و رسوخ کو تسلیم کرتا ہے-
جیفری کے بقول : امریکہ کو یہ تسلیم ہے کہ تہران شام میں اپنے سفارتی کردار کا تحفظ کرے۔ بظاہر واشنگٹن کے حکام یہ بھول گئے ہیں کہ ایران اپنی علاقائی پالیسی منجملہ شام میں اپنی موجودگی کو، اپنے اور اپنے اتحادیوں کے سیکورٹی مفادات کی بنیاد پر منصوبہ بندی کرتا ہے-درحقیقت شام میں ایران کے فوجی مشیروں کی موجودگی، دہشت گردوں سے مقابلے کے لئے شام کی قانونی حکومت کی درخواست پرہے اور شام کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں شامی فوج کو کامیابیاں دلانے میں ایران کے فوجی مشیروں کا بہت اہم کردار رہا ہے-
شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل مقداد نے کہا ہے کہ ایرانی فورسز اور حزب اللہ لبنان کی شام میں موجودگی، دہشت گردی سے مقابلے کے لئے ہماری حکومت کی درخواست پر انجام پائی ہے-اسی سبب سے شام سے ایران کے فوجی مشیروں کو نکالنے جانے کی واشنگٹن کی بارہا کی درخواست کے باوجود شام کی حکومت اور اس ملک کے قانونی صدر بشار اسد نے سخت مخالفت کی ہے-