پاکستان کے وزیر خارجہ کا علاقے کے تین ملکوں کا دورہ شروع
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، علاقے کے چند ممالک کے دورے پر پیر کی صبح افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچے۔
شاہ محمود قریشی نے اپنے اس دورے میں افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی اور افغانستان کی قومی حکومت کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات و گفتگو کی - شاہ محمود قریشی افغانستان کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران ، چین اور روس کا بھی دورہ کریں گے - سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ کابل میں افغان حکام کے ساتھ پاکستان کے وزیرخارجہ کا موضوع گفتگو افغانستان میں قیام امن کا عمل ہے یہ موضوع دو لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے - پہلا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان ، امریکہ کے دباؤ میں آکر آخرکار افغانستان کے امن کے عمل میں شامل ہونے کے لئے طالبان کو راغب کرنے کے لئے مثبت و مفید کردار ادا کرنے پر تیار ہوگیا ہے- ابوظبی میں طالبان کے ساتھ متحدہ عرب امارات ، پاکستان ، سعودی عرب اور امریکہ کے نمائندوں کی موجودگی میں حالیہ چند جانبہ مذاکرات کے انعقاد سے افغان امن کے عمل میں اہم تبدیلی کا پتہ چلتا ہے کیونکہ اس کے بعد امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ افغانستان سے اپنے کچھ فوجیوں کو باہر نکال رہا ہے اور افغانستان کے امور میں امریکی مندوب زلمے خلیل زاد نے اعلان کیا کہ طالبان نے تسلیم کرلیا ہے کہ فوجی راستے سے افغانستان میں اقتدار پرقبضہ نہیں کیا جا سکتا - بنا بریں پاکستان کے وزیرخارجہ کے دورہ افغانستان کا مقصد اس ملک میں قیام امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے واشنگٹن اور اسلام آباد کے آئندہ منصوبوں سے حکومت افغانستان کو مطلع کرنا ہے- دوسرے یہ کہ پاکستان چاہتا ہے کہ اس عمل کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھے کیونکہ یہ ملک افغانستان کو اپنی کالونی سمجھتا ہے اور اپنے مدنظر اہداف منجملہ پاکستان و افغانستان کے درمیان ڈیورنڈلائن کو بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کرنے کا مقصد حاصل کئے بغیر افغان امن کے عمل کو آگے بڑھانے میں مثبت و اہم اثرات ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہے - اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ، طالبان کو افغانستان میں اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کے لئے بطورہ ہتھکنڈہ استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے- سیاسی امور کے ماہر راشد عباس نقوی افغانستان میں پاکستان کے اہداف کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں : اسلام آباد چاہتا ہے کہ افغانستان میں ہندوستان کا کوئی اثر و نفوذ نہ رہے اور اس کے لئے وہ تمام وسائل استعمال کرے گا- پاکستان اگر افغانستان میں واشنگٹن کو بھی شکست دینے میں کامیاب ہوجائے تو اپنا مقصد حاصل کرنے یعنی اس ملک میں ہندوستان کا اثر و نفوذ روکنے میں کامیاب ہوجائے گا- یہ ایسی حالت میں ہے کہ حکومت افغانستان نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کے اندر افغانستان میں قیام امن کے عمل میں مدد کے لئے لازمی صداقت کا فقدان ہے- اور اس کا خیال ہے کہ اسلام آباد ، ڈیورند لائن کو بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کرنے اور افغانستان کے سیاسی ڈھانچے میں طالبان کی پوزیشن مضبوط بنانے جیسے اپنے بعض مطالبات کی تصدیق و تائید کے سلسلے میں امریکی مدد کے وعدے کے عوض افغانستان میں واشنگٹن کی پالیسیوں کے ساتھ تعاون کرنے پرتیار ہوا ہے-
افغانستان کے امور کے سیاسی ماہر امیر خطیبی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسائل و چیلنجوں کی جڑ تاریخ و ڈیورنڈ لائن میں پیوست ہے جس کا بیج علاقے میں برطانوی سامراج کا بویا ہوا ہے- اس ڈیورنڈ لائن کو حکومت افغانستان نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا- بہرحال حکومت افغانستان نے ہمیشہ کابل کو محور بناتے ہوئے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات پر تاکید کی ہے اور اس کا خیال ہے کہ علاقے کے ممالک حتی امریکہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرسکتے- اس بنا پر ایسا نظر نہیں آتا کہ پاکستان کے وزیرخارجہ کابل کے دورے میں امتیاز حاصل کرنے کے لئے اس ملک کے حکام کی حمایت حاصل کرپائیں گے اور افغانستان ، امن مذاکرات کے عمل کا کنٹرول پاکستان کو دے گا-