Feb ۰۵, ۲۰۱۹ ۱۷:۰۶ Asia/Tehran
  • امریکہ اور سعودی عرب کی

امریکی نیوز چینل سی این این نے منگل کو ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ واشنگٹن نے جنگ یمن کے لئے اپنے جو ہتھیار عرب اتحاد کو دیئے ہیں، سعودی عرب نے وہی امریکی ہتھیار، دہشت گرد گروہ القاعدہ کو دیئے ہیں-

واشنگٹن نے آل سعود کی وسیع پیمانے پر ہتھیاروں سے مدد کرنے کے علاوہ، سعودی اتحاد کے طیاروں کو تیل فراہم کرنے کی سہولت بھی فراہم کی ہے اور ساتھ ہی وہ یمن کے خلاف جنگ میں سعودی اتحاد کا ہر جہت سے تعاون کرنے کے ساتھ ہی اس کے انتظامات اور کمانڈ بھی سنبھالے ہوئے ہے- واشنگٹن، یمن کے خلاف جنگ میں سعودی اتحاد کا سب سے بڑا حامی شمار ہوتا ہے اور یہ بات، سینچری ڈیل منصوبے کے دائرے میں سعودی عرب کے ساتھ پانچ سو ارب ڈالر کا معاملہ کرنے سے واضح ہوگئی ہے

دہشت گردوں کی حمایت میں امریکہ اور سعودی عرب کے تازہ ترین اقدامات کی مزید تفصیلات منظرعام پر آنے سے، سینچری ڈیل منصوبے کے دائرے میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان پس پردہ سازش کی جانب لوگوں کی توجہ ماضی سے زیادہ مبذول ہوئی ہے-امریکہ اور سعودی عرب، یمن سمیت مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کو مسلح کرنے میں جو تعاون کر رہے ہیں اس کا ماضی میں بھی ریکارڈ موجود ہے- تقریبا دو سال قبل یمنی ذرائع نے اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب نے داعش دہشت گرد گروہ سے وابستہ چار سو مسلح افراد کو چھوٹے بحری جہازوں کے ذریعے شام سے جنوبی یمن کی عدن بندرگاہ منتقل کیا ہے تاکہ ان افراد کو یمن کے جنگی محاذوں کی جانب روانہ کیا جائے- بالفاظ دیگر سعودی عرب نے دہشت گرد گروہوں کو شام اور دیگر علاقوں سے یمن منتقل کیا ہے اور ان دہشت گرد گروہوں کو ہتھیاروں سے مسلح کرنے کی ذمہ داری بھی امریکہ کے کاندھوں پر رہی ہے جس سے دہشت گردوں کے لئے امریکہ اور سعودی عرب کی ہمہ جانبہ حمایت کے دیگر پہلو بھی نمایاں ہوجاتے ہیں

دہشت گردوں کی حمایت کے لئے سعودی عرب اور مغربی حکومتوں کے باہمی تعاون سے، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بدامنی اور تشدد میں اضافے کے سوا اور کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا ہے- سعودی عرب کو مغربی ہتھیاروں سے ایسےمیں مسلح کیا جا رہا ہے کہ اس ملک کے اقدامات، مغربی ایشیا کے علاقے میں امن و سلامتی کے برخلاف اور متضاد ہیں اور تمام قرائن و شواہد بھی اس امر کے غماز ہیں کہ سعودی عرب ، تکفیری گروہوں کو مسلح کرنے میں آشکارہ اور پنہاں رول ادا کر رہا ہے اور ان تکفیری گروہوں کا سرچشمہ آل سعود کی متعصبانہ سوچ اور فرسودہ تعلیمات ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ، القاعدہ سمیت دہشت گرد گروہوں سے مقابلے کے دعوے کی، اپنی فریبکارانہ پالییسی جاری رکھے ہوئے ہے اور اس بہانے سے یمن کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی کررہا ہے- اسی دائرے میں گذشتہ مہینوں کے دوران بارہا یہ خبریں منظر عام پر آئی ہیں کہ دہشت گرد گروہوں سے مقابلے کے بہانے امریکی فوج کی ایک تعداد، یمن میں داخل ہوئی ہے- جس سے علاقے میں امریکہ اور سعودی عرب کے مشکوک اقدامات کی نشاندہی ہوتی ہے-

سعودی عرب دنیا میں دہشت گردی کی سوچ کو پروان چڑھانے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اور داعش، القاعدہ اور طالبان، سعودی وہابی افکار اور سوچ کا نتیجہ ہیں سعودی عرب کی ملکی اور غیر ملکی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ خطے اور دنیا کی سطح پر دہشت گردی میں ملوث اکثر عناصر کا تعلق یا تو سعودی عرب سے ہے یا وہ سعودی عرب کی وہابیت سے متاثر ہیں اور ان کو آل سعود کی مالی اور اسلحہ جاتی حمایت حاصل ہے۔ ان دہشت گرد گروہوں کی جڑ وہابیت کے غلط اور انتہا پسندانہ نظریات ہی ہیں۔ ان غلط عقائد نے ہی خطے اور دنیا میں آل سعود کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جیسا کہ اس وقت سعودی عرب کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ منجملہ داعش اور القاعدہ ، مختلف ناموں مثلا انصار الشریعہ، بوکوحرام اور الشباب کے ناموں کے ساتھ  افریقہ ، ایشیا حتی یورپ میں  سرگرم ہیں اور یہ گروہ عالمی سلامتی کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔

اس میں شک نہیں ہے کہ اگر خطے کے دقیانوس عرب ممالک خصوصا سعودی عرب اور مغربی ممالک کی حمایت اور مدد نہ ہوتی تو دہشت گرد گروہ اپنی کارروائیوں کا دائرہ اس حد تک نہیں بڑھا سکتے تھے۔ تکفیری دہشت گرد گروہ صرف عراق اور شام میں ہی نہیں بلکہ وہ شمالی افریقہ کے بہت سے ممالک مثلا مصر، لیبیا اور تیونس میں بھی سرگرم ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کی برآمدات کو تیل کے بعد سعودی عرب کی دوسری بڑی برآمدات قرار دیا جاسکتا ہے اور سعودی عرب تخریب کاری پر مبنی اپنے اقدامات کی وجہ سےدنیا بھر میں دہشت گردانہ نظریات پروان چڑھانے اور دہشت گردوں کی مدد کرنے والے سب سے بڑے ملک میں تبدیل ہوچکا ہے۔

       

 

 

ٹیگس