الحدیدہ میں فوج کی دوبارہ تعیناتی پر انصاراللہ کی موافقت
یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مارٹین گریفتھس کے ساتھ ملاقات میں، الحدیدہ میں دوبارہ فورسز کی تعیناتی کے منصوبے کی تحریک انصار اللہ کی جانب سے موافقت کا اعلان کیا ہے-
الحدیدہ میں فورسز کی دوبارہ تعیناتی کے منصوبے پر انصاراللہ کی موافقت ، دسمبر 2018 کے اسٹاک ہوم سمجھوتے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2450 کے دائرے میں ہے- اس سمجھوتے کے مطابق یہ طے پایا ہے کہ الحدیدہ میں جنگ بندی کے قیام اور انسان دوستانہ امداد ارسال کئے جانے کے لئے حالات سازگار بنائے جائیں- یہ بھی طے پایا ہے کہ مسلح افواج الحدیدہ سے پسپائی اختیار کریں اور مقامی فورسز اس شہر میں تعینات ہوں- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2450 نے بھی اس سمجھوتے کی حمایت کی ہے-
اسٹاک ہوم امن سمجھوتے کو طے پائے ہوئےتقریبا چالیس دن گذرجانے کے بعد بھی سعودی عرب کی جانب سے خلاف ورزیوں کا جاری رہنا اور یمن کی مستعفی حکومت میں ٹھوس عزم و ارادے کا فقدان اس بات کا باعث بنا ہے کہ اب تک اس امن سمجھوتہ پر عمل نہیں ہوسکا ہے- اسی سبب سے الحدیدہ میں اقوام متحدہ کے مبصرمشن کے سربراہ مائیکل لولیسگارڈ نے گیارہ فروری کو الحدیدہ میں مقامی فورسز کی دوبارہ تعیناتی کا منصوبہ پیش کیا ہے- مائیکل لولیسگارڈ نے اس سلسلے میں کہا کہ یہ منصوبہ، الحدیدہ کے عوام تک امداد کی ترسیل کے لئے پرامن گذرگاہیں قائم کرنے اور بین الاقوامی فورسز کی نگرانی میں انسان دوستانہ اقدامات انجام دیئے جانے پر مشتمل ہے-
اس منصوبے کے پہلے مرحلے کے بارے میں انصاراللہ کی موافقت سے ایک بار پھر اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ انصاراللہ اور اس کے اتحادی، جہاں ایک طرف یمن کے باہر سے کوئی دستور نہیں لیتے تو دوسری جانب یمن کے بحران کو ختم کرنے کا ٹھوس اور پختہ عزم بھی رکھتے ہیں- جبکہ یمن کی مستعفی حکومت ، سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مقیم ہے اور مکمل طور پر اسی کے احکامات پرعمل کر رہی ہے- یہی وجہ ہے کہ اس مستعفی حکومت میں یمن کے بحران کو ختم کرنے کا ٹھوس ارادہ بالکل نہیں پایا جاتا کیوں کہ سعودی عرب کے نقطہ نگاہ سے یمن کے بحران کا اختتام صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تحریک انصاراللہ 2014 سے پہلے والی حالت پر لوٹ جائے- ستمبر 2014 سے قبل تک، یمن کی سیاست میں انصاراللہ کا کوئی کردار نہیں تھا اور اسے تو بس صنعا حکومت کے خلاف ایک گھسپیٹھ اور بیرونی عناصر کے طور پر جانا جاتا تھا - لیکن اس تاریخ کے بعد سے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاراللہ، یمن میں ایک منظم سیاسی طاقت میں تبدیل ہوگئی اور اب یہ تحریک نہ صرف یمن کی سیاست سے دور نہیں ، بلکہ یمن کی سیاست اس کی مٹھی میں ہے اور اسے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے- اگرچہ ابھی بھی مستعفی حکومت اور اس کے حامی عناصر، انصاراللہ کو مزاحم اور بیگانہ سمجھتے ہیں-
اس صورتحال کے پیش نظر سب سے پہلے تو یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ سعودی عرب اور یمن کی مستعفی حکومت ، الحدیدہ میں دوبارہ فورسیز کی تعیناتی کے بارے میں مائیکل لولیسگارڈ کے منصوبے کی حمایت کریں گے اور دوم یہ کہ اگر اس منصوبے کی موافقت کر بھی دیں تو ان کی کوشش ہوگی کہ اس منصوبے پر اس طرح سے عملدرآمد کیا جائے کہ الحدیدہ سے انصاراللہ کو نکالے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہو- آل سعود نے حال ہی میں، ملک عبدالعزیز بریگیڈ کے کمانڈر اور ان کے جانشین بریگیڈیئر جنرل عبود الشہرانی کو، یمنی فوج اور عوامی فورسز کے ہاتھوں مسلسل شکست کھانے کے بعد ان کے عہدے سے برطرف کردیا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب ، یمن کی مستعفی حکومت ، اور یمن کے خلاف جنگ کے حامی بیرونی ممالک ، اس جنگ کو چار سال کا عرصہ گذرجانے کے باوجود ، اور اس کے باوجود کہ آج انصاراللہ کی پوزیشن، میدان جنگ میں گذشتہ چار سال کی بہ نسبت کئی گنا بہتر ہے ابھی بھی انصاراللہ کو یمن کے اقتدار کے ڈھانچے میں ایک اہم عنصر کی حیثیت سے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں-