شمالی کوریا کا امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ
شمالی کوریا کے نائب وزیر خارجہ نے امریکہ کے ساتھ ایٹمی مذاکرات پر نظر ثانی کرنے کے امکان کی خبر دی ہے
شمالی کوریا کے نائب وزیر خارجہ چو سون ہوئی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ شمالی کوریا کے رہنما کیم جونگ اون بھی جو امریکہ کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں کہا کہ پیونگ یانگ نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک صبر کیا اور بیلسٹک میزائلی و ایٹمی تجربات نہیں کئے لہذا ان حالات میں بعض پابندیاں منسوخ ہونا چاہئے تھیں - شمالی کوریا کے اس سینئرعہدیدار کا یہ موقف امریکہ کے ساتھ حالیہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد سامنے آیا ہے جو امریکی صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما کیم جونگ اون کی موجودگی میں منعقد ہوا- امریکی صدر نے مذاکرات میں شمالی کوریا کے رہنما پر زیادہ طلبی کا الزام لگاتے ہوئے انھیں ہانوئی مذاکرات کی ناکامی کا عامل قرار دیا- یہ ایسی حالت میں ہے کہ پیونگ یانگ کی نگاہ میں امریکہ نہ صرف شمالی کوریا کو مراعات دینے کے لئے تیار نہیں ہے بلکہ اس ملک کو یکطرفہ طور پر ایٹمی پروگرام رکونے پر مجبور کرنے کی کوشش کررہا ہے-
امریکہ میں سیاسی امور کی تجزیہ نگار سوزن دی میگو نے اس سلسلے میں کہا کہ ؛ میں نے شمالی کوریا کے ساتھ غیرسرکاری مذاکرات میں یہ سمجھ لیا کہ وہ امریکیوں کے ساتھ سمجھوتے کے طریقے کو جانتے ہیں اور کسی بھی قیمت پر امریکہ سے سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے-
حقیقت یہ ہے کہ شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیار اور سلامتی کونسل کی جانب سے عائد پابندیاں ، مراعات حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کے لئے ہتھیارسمجھی جا رہی ہیں اور اسی بنا پر دونوں میں سے کوئی بھی فریق اپنے ہتھکنڈے کی طاقت و اہمیت کو کم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے - شمالی کوریا نے یان بیون کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے بدلے دوہزار سولہ اور سترہ میں پیویانگ کے خلاف سلامتی کونسل کی پانچ پابندیوں کی منسوخی کا مطالبہ کیا ہے اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ ٹرمپ سمجھتے تھے کہ اگرایک ایٹمی ٹاورکی تباہی کے عوض شمالی کوریا پرعائد کچھ پابندیاں منسوخ ہوجائیں گی تو پھر ایٹمی و میزائلی پروگرام کی منسوخی کے لئے پابندیوں کا کوئی اثر باقی نہیں رہ جائے گا- اسی بنا پر انھوں نے شمالی کوریا کے رہنما کے مطالبے کو نہیں مانا اور اپنے موقف میں نرمیں لانے پر تیار نہیں ہوئے- اس کے علاوہ شمالی کوریا اور امریکہ کے رہنماؤں کے درمیان ہانوئی مذاکرات پوری طرح خصوصی صورت حال کے حامل رہے کیونکہ ہانوئی اجلاس کے موقع پر ہی ٹرمپ کے سابق وکیل نے ان کے خلاف گواہی دی اور انھیں نسل پرست اور جھوٹا کہا اور اس واقعے نے جو کیم جونگ اون اور ٹرمپ کے درمیان مذاکرات کے دوران ہی پیش آیا امریکی صدر کو پوری طرح الجھا کر رکھ کردیا- اس صورت حال نے ٹرمپ کو اس تشویش میں مبلا کردیا کہ شمالی کوریا کے ساتھ کسی بھی طرح کے سمجھوتے کی صورت میں انھیں امریکہ کے قومی مفادات سے خیانت کرنے والا سمجھا جائے گا - اسی بنا پر انھوں نے یہ اعلان کر کے کہ سمجھوتہ نہ کرنا برا سمجھوتہ کرنے سے بہتر ہے ، ہانوئی مذاکرات کی شکست کی توجیہ ککی اور خود کوان مذاکرات کا ہیرو ظاہر کرنے کی کوشش کی- اس سلسلے میں امریکہ میں سیاسی امور کے ماہر آنتوان بونداز کا کہنا ہے کہ: اس بات کے پیش نظر کہ امریکی صدر کے پاس صدارتی انتخابات کے انعقاد یعنی اٹھارہ مہینوں تک پیونگ یانگ کے ساتھ مذاکرات کو ایک سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کا وقت مل جائےگا اور اسی بنا پر وہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کو پوری طرح روکنا چاہتے ہیں -
بہرحال ایسا نظر آتا ہے کہ شمالی کوریا کے رہنما امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں کافی اعتماد نفس کے حامل رہے اور اس موضوع نے ٹرمپ کو کافی سیاسی دباؤ میں مبتلاء کردیا کیونکہ شمالی کوریا کی حکومت اورعوام اس ملک کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کے ساتھ اس طرح زندگی گذارنے کے عادی ہوگئے ہیں ہیں کہ گویا پابندیوں نے اپنے اثرات کھو دیئے ہیں-