مشرق وسطی میں امریکی منصوبوں کی شکست پر حسن نصراللہ کی تاکید
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے کہا ہے کہ امریکہ نے 2006 میں مزاحمت کو نابود کرنے کے لئے بڑے بڑے منصوبے تیار کئے تھے لیکن مزاحمتی محور کی پائیداری و استقامت نے اس کے منصوبوں کو ناکام بنادیا-
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ مجھے قوی امید ہے کہ مزاحمتی محور کے خلاف مزید امریکی پابندیاں عائد کی جائیں گی اس لئے کہ مزاحمتی محور نے امریکی و اسرائیلی منصوبے کو شکست سے دوچار کردیا ہے کہ جس کی بعض علاقائی ملکوں کی جانب سے حمایت کی جا رہی تھی- سید حسن نصراللہ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ مزاحمتی محور وہی فریق ہے کہ جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سنچری ڈیل منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں محکم دیوار بنا ہوا ہے-
حققیت یہ ہے کہ امریکہ، مختلف ادوار میں " نئے مشرق وسطی" منصوبے سے لے کر "سنچری ڈیل" منصوبے تک کے اپنے سازشی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشاں رہا ہے اور ان سازشی منصوبوں کا اصل مقصد مشرق وسطی میں اقتدار کے ڈھانچے سے مزاحمتی محور کو ختم کرکے علاقے کی برتر طاقت کی حیثیت سے اسرائیل کو تسلیم کروانا تھا- نیا مشرق وسطی منصوبہ ، سابق امریکی صدر جارج بش اور اس وقت کی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کی ذہنی پیداوار تھی اور روڈ میپ منصوبے کو بھی 2006 میں تینتیس روزہ جنگ کے ذریعے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی- لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ اس جنگ میں اسرائیل کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا اور یہ جنگ حزب اللہ لبنان کے خلاف اسرائیل کی آخری جنگ اور یلغار تھی اور پھر اس کے بعد سے وہ حزب اللہ کے خلاف کسی بھی جنگ کے حوالے سے شدید خوف میں مبتلا ہے- جیسا کہ سید حسن نصراللہ نے بارہا کہا ہے کہ لبنان میں پائیداری و مقاومت نے، اسرائیل کے مقدر میں دائمی شکست لکھ دی ہے اور اس جارح اور غاصب حکومت کو ناقابل فراموش سبق سیکھایا ہے- تینتیس روزہ جنگ کا اہم ترین نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کا افسانہ چکنا چور ہوگیا اور اسے پہلی بار فلسطینی علاقوں میں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا -
مشرق وسطی میں رونما ہونے والی بعد کی تبدیلیوں سے بھی یہ ثابت ہوگیا کہ علاقے میں امریکہ نے، 2006ء میں اسرائیل کے خلاف 33 روزہ جنگ (جنگ تموز) کے تسلسل میں، شام میں جنگ جیسی سازشیں رچی ہیں اوراگر لبنان کو اس جنگ میں شکست ہوجاتی تو پھر اس کے بعد امریکہ شام کی حکومت کا تختہ پلٹنے کو اپنا ہدف بناتا اور اس کے عملی ہونے کا بھی امکان زیادہ تھا- شام میں 2011 میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگرچہ تینتیس روزہ جنگ میں اسرائیل کی شکست نے شام کی حکومت کی سرنگونی کے منصوبے کو بھی ناکام بنادیا لیکن یہ منصوبہ فراموش نہیں ہوا اور امریکہ اور صیہونی حکومت نے مختلف سازشوں اور دہشت گردوں کو شام روانہ کرنے کے ذریعے اس ملک میں اپنی مداخلت کی بھرپور کوششیں انجام دیں لیکن مزاحمتی محور نے ان سازشوں کو ناکام بنا دیا-
علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ حزب اللہ کی قیادت میں لبنان کی مزاحمت اور اس کی میزائلی صلاحیت نے ، مختلف میدانوں میں اس ملک کے طاقتور ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے- علاقے میں تکفیریوں اور صیہونیوں کو کاری ضرب لگانے اور نئے مشرق وسطی نیز سنیچڑی ڈیل سے موسوم امریکی منصوبوں کو ناکام بنانے میں مزاحمتی محاذ کی کامیابیاں، اس بات کا سبب بنی ہیں کہ مزاحمتی محاذ کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا محاذ، کینے اور دشمنی پر اتر آئے-
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ہمیشہ سے اپنے مد نظر منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے درپے رہا ہے اور ان منصوبوں کا اصلی ہدف و مقصد بھی یہ ہے کہ مشرق وسطی میں قوت و اقتدار کے ڈھانچے سے مزاحمتی محور کو نابود کردیا جائے- لیکن علاقے خاص طور پر لبنان میں مزاحمتی گروہ کی پائیداری و استقامت نے اسرائیل کے دانٹ کھٹے کردیئے ہیں- مزاحمت کو کنارے لگانے کے امریکہ اور اسرائیل کے غیر قانونی اور جارحانہ اقدامات کے باوجود ، چاہے وہ لبنان میں ہوں یا عراق میں یا شام میں ہوں یا یمن میں ، سینچری ڈیل سمیت مختلف پروپگنڈوں اور سازشوں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ علاقے کے عوام اپنے ملکی مفادات اور امنگوں کا کبھی سودا نہیں کریں گے اور یہ وہی مسئلہ ہے کہ جس پر حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے تاکید کی ہے-