ٹرمپ انتظامیہ کا ایران مخالف نیا اقدام،ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کو دی گئی چھوٹ کی عدم تجدید کا اعلان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آٹھ مئی 2018 کو ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے اور اگست اور نومبر 2018 کو ایران کے خلاف نئی ایٹمی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا-
یہ پابندیاں دو مرحلے میں، نوّے اور ایک سو اسّی روزہ تھیں کہ جن میں پہلے مرحلے کی پابندیاں چھ اگست کو عائد کی گئیں جبکہ ان پابندیوں کا دوسرا مرحلہ جو تیل کی پابندیوں پر مشتمل تھا، پیر پانچ نومبر 2018 سے شروع ہوا- واشنگٹن نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ اس کا مقصد، پانچ نومبر سے ایران کے تیل کی برآمدات کو مکمل طور پر منقطع کرنا ہے- لیکن ان پابندیوں کو عائد کرنے سے چند روز قبل امریکہ نے اعلان کیا کہ آٹھ ملکوں کو ایران سے تیل کی خریداری کی چھوٹ دی جا رہی ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ تیل کی منڈی میں رخنہ اندازی سے عالمی برادری کو لاحق ہونے والی تشویش کے باوجود امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے پیر کے روز یعنی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے غیر قانونی طور پر نکلنے کے ایک سال پورے ہونے کے موقع پر اور وائٹ ہاؤس کی ایران مخالف پالیسیوں کے دائرے میں اعلان کیا کہ اب کسی بھی ملک کو ایران سے تیل خریدنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور بعض ملکوں کو جو استثنا حاصل تھا وہ ختم کیا جا رہا ہے-
پمپئو نے کہا کہ واشنگٹن، رواں سال دو مئی سے ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کو دی گئی چھوٹ کی مدت میں اضافہ نہیں کرے گا اور اس پر نگرانی بھی کرے گا۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے واشنگٹن کو یہ اطمئنان دلایا ہے کہ وہ تیل کی منڈی کو مشکل سے دوچار ہونے نہیں دیں گے- ایران کے تیل کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرنے اور اس سے تیل کی خریداری کرنے پر پابندی نیز ہر قسم کے مالی اور بینکنگ معاملات اسی طرح ایران اور دیگر ملکوں کے تجارتی و اقتصادی تعلقات کی راہ میں روڑے اٹکانے سے امریکہ کا مقصد، ایران کی معیشت کو تباہ کرنا ہے-
ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اوغلو نے ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کو دی گئی چھوٹ کی عدم تجدید کے اعلان کی مذمت کی ہے اور ایک ٹوئیٹ میں لکھا ہے کہ ایران کے تیل کی برآمدات پر پابندی سے علاقے میں امن و صلح کے قیام میں کوئی مدد نہیں ملے گی البتہ اس سے ایرانی عوام کو نقصان پہنچے گا- ترکی نے اسی طرح امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں اور پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے طریقہ کار کے بارے میں کسی طرح کے جبر و زبردستی کو مسترد کیا ہے-
ایران سے تیل کی خریداری کا مکمل طور پر بائیکاٹ اور منڈیوں میں تیل کی کمی اس بات کا باعث بنی ہے کہ تیل کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے کہ جس کے نتیجے میں امریکہ میں بھی بہت زیادہ تیل کی قیمت میں اضافہ ہوگا اور یہ امر مسلمہ طور پر ٹرمپ انتظامیہ سے امریکی عوام کی ناراضگی اور غصے کا باعث بنے گا- یہ ایسے میں ہے کہ ترکی اور چین جیسے ممالک ایران سے تیل خریدنے پر مصر ہیں اور ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکی پابندیاں بھی ان ملکوں کو اپنے فیصلے سے باز نہیں رکھ سکیں گی-
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ حکومت ممکن ہے کہ ایران کے تیل کی برآمدات کو محدود کردے، لیکن اسے صفر تک نہیں پہنچا سکتی کیوں کہ امریکہ ، ایران کا تیل خریدنے والے تمام ملکوں کو اس بات پر راضی نہیں کرسکے گا کہ وہ ایران سے تیل کی خریداری بند کردیں- چین اور ہندوستان ایران کے تیل کے سب سے بڑے خریدار ممالک ہیں اور ان کے تہران کے ساتھ وسیع تعلقات قائم ہیں اور یہ دونوں ملک ایران کے توانائی کے ذخائر سے وابستہ ہیں-
اس لئے بعید لگتا ہے کہ امریکی انتظامیہ، چین یا ہندوستان کے خلاف پابندی والی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا سکے گی۔ ساتھ ہی یہ کہ عالمی منڈیوں میں ایران کے تیل کی کمی سے ، اس کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہوجائے گا اور ونزوئلا کے خلاف امریکی پابندیوں کے سبب اس مسئلے میں شدت آئی ہے- لیبیا اور الجزائر میں تیل کی پیداوار سے متعلق تشویش بھی عالمی تیل کی قیمت میں اضافے پر اثرانداز ہوئی ہے- اگرچہ پمپئو نے یہ دعوی کیا ہے کہ ریاض نے واشنگٹن کو یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ عالمی منڈیوں میں ایران کے تیل کی کمی کی تلافی کرے گا- لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سعودی عرب میں عملی طور پر یہ کام انجام دینے کی صلاحیت بھی موجود ہے؟ -
اس سے اہم تر یہ ہے کہ کیا ایران کے تیل پر عائد کی جانے والی پابندیاں ، امریکی مطالبات کے سامنے ایران کے جھکنے کا سبب بن جائیں گی؟ اس سوال کا جواب بالکل واضح اور آشکار ہے کہ ایران نے گذشتہ چالیس برسوں میں ہمیشہ امریکی پابندیوں کے مقابلے میں استقامت کی ہے اور عملی طور پر واشنگٹن کی سازشوں کو ناکام اور بے اثر بنا دیا ہے- ساتھ ہی ایران نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ وہ کامیابی کے ساتھ امریکی پابندیوں پر غلبہ پانے اور ٹرمپ انتظامیہ کی دشمنانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنے پر قادر ہے- ایران کے ساتھ ایٹمی مذاکرات میں شریک امریکہ کی سابق مذاکرات کار وینڈی شرمن نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ٹرمپ حکومت کی پابندیوں کو غیرموثر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مزاحمت و مقاومت ایرانیوں کا اصلی نعرہ ہے-