پیسہ، غیر ملکی پالیسی کا آلہ کار یا سعودی عرب کی حقارت کا عامل
سعود عرب تیل سے حاصل ہونے والی بھاری آمدنی اور تقریبا پچیس ملین کی آبادی پر مشتمل مغربی ایشیا کا سب سے ثروت مند ملک ہے-
سعودی عرب اہل سنت کی قیادت اور اسی طرح علاقائی طاقت ہونے کا دعویدار ہے- اس کا یہ دعوی دو عوامل کے سبب ہے۔ ایک تو اس ملک میں مکہ اور مدینہ جیسے مقدس مقامات ہیں اور دوسرے اس کے پاس تیل کی آمدنی سے حاصل ہونے والا بہت زیادہ پیسہ ہے- اگرچہ مذہبی عنصر، سعودی عرب کے علاقائی اثر ورسوخ میں اہم کردار کا حامل ہے تاہم ریاض مذہبی سے زیادہ مادی فیکٹر یعنی پیسے پر بھروسہ کرکے علاقے میں رول ادا کرنا چاہتاہے-
اس کے ساتھ ہی سعودی عرب اپنے پٹروڈالروں سے دو طرح کی سرگرمی انجام دے رہا ہے ایک تو وہ پیسے کے ذریعے علاقے میں اثرو رسوخ پیدا کرنے اور دیگر عرب ملکوں پر اثرانداز ہونا چاہتا ہے اور دوسری جانب پیسے کے ذریعے وہ مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کی حمایت حاصل کرنے میں منہمک ہے-
آل سعود کی جانب سے علاقائی اثر و رسوخ سے غلط استفادے کے بہت زیادہ مصادیق ہیں ان میں سے ایک فلسطین کا موضوع ہے - آل سعود نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور فلسطین کی تحریک فتح کی حمایت کرکے ، مزاحمتی گروہوں کے مقابلے میں ان کے موقف کو تقویت پہنچائیں اور ایک طرح سے ان کو ریاض سے وابستہ کردیں- اور اسی غلط طرزفکر کے باعث سعودی عرب نے فلسطینیوں کی امنگوں اور اہداف کے ساتھ خیانت کی ہے اور ان کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے- چنانچہ روزنامہ الاخبار کے مطابق رام اللہ میں اردن کے نمائندے نے اپنے ملک کی وزارت خارجہ کو ارسال کی گئی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سعودی ولیعہد بن سلمان نے گذشتہ فروری کے مہینے میں ریاض میں فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس سے ملاقات کے دوران امریکی سینچری ڈیل قبول کرنے کے عوض انہیں دس ارب ڈالر دینے کی پیشکش کی تھی۔ سعودی ولیعہد نے کہا تھا کہ یہ رقم آئندہ دس برس میں محمود عباس کو دی جائے گی۔ خبروں میں کہا گیا ہے کہ محمود عباس نے سعودی ولیعہد کی اس پیشکش کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پوری فلسطینی قوم سینچری ڈیل کی مخالف ہے اور اگر میں اس کو قبول کرلوں گا تو یہ میری سیاسی زندگی کا خاتمہ ہوگا۔ قابل ذکر ہےکہ سعودی ولیعہد نے امریکا کے منحوس منصوبے سینچری ڈیل کو عملی جامہ پہنانے اور غاصب اسرائیلیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش تیز کردی ہے۔
اس کے علاوہ سعودی عرب نے فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی مخالفت میں اور فلسطین میں اس تحریک کی پوزیشن کو کمزور کرنے کے مقصد سے کہ جو سنچری ڈیل منصوبے کی مخالف ہے، حماس کی مالی طاقت کو نشانہ بنایا ہے- اسی سلسلے میں گذشتہ مہینوں کے دوران سعودی حکومت نے حماس کو پیسہ ارسال کرنے والے افراد کو گرفتار کرلیا ہے یا جو ادارے حماس کو پیسہ ارسال کرتے ہیں، ان پرتالا چڑھا دیا ہے- تحریک حماس کے سیاسی دفتر کے رکن محمود الزھار نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ سعودی عرب برسوں پہلے سے مزاحمتی گروہوں کے لئے ارسال کی جانے والی رقومات کو روکنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور ان دنوں یہ پالیسی بہت آشکارہ ہوگئی ہے-
سنچری ڈیل منصوبے کے تحت بیت المقدس، اسرائیل کے حوالے کر دیا جائے گا، فلسطینیوں کو اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کا حق نہیں ہو گا اور اسرائیل کے ناجائز قبضے سے باقی بچ جانے والے غرب اردن اور غزہ کے علاقے ہی فلسطینیوں کی ملکیت ہوں گے۔ سینچری ڈیل، امریکہ کا ایک نیا منصوبہ ہے جسے مسئلہ فلسطین کو نابود کرنے کی غرض سے سعودی عرب سمیت بعض عرب ملکوں کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے-
بلا شبہ اگر عالم اسلام میں اختلاف و افتراق نہ ہوتا اور بعض عرب ممالک ٹرمپ کی پالیسیوں کے تابع نہ ہوتے تو آج ٹرمپ اور نتنیاہو فلسطین اور شام کی سرزمینوں پر قبضے اور اسرائیل کے غاصبانہ اہداف کو آگے بڑھانے میں اس حد تک جسور نہیں ہوتے -
سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کو کرسی اقتدار تک رسائی کے لئے امریکی حمایت کی ضرورت تھی- اسی بنا پر اس نے 2017 میں امریکہ کے ساتھ چار سو ارب ڈالر کا معاہدہ کیا کہ جس میں سے 110 ارب ڈالر فوجی ہتھیاروں کی خریداری سے مختص تھا تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی حمایت کو حاصل کرسکیں- اس طرح سے پٹروڈالر کو امریکہ کی خوشنودی میں لٹانا سعودی عرب کی ذلت و حقارت کا سبب بنا ہے- امریکی صدر نے بارہا واضح الفاظ میں سعودی عرب کی توہین کی ہے ٹرمپ نے حال ہی میں کہا ہے کہ سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے کہ جس کے پاس پیسے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور میں نے یہ بات پادشاہ سلمان سے بھی کہی ہے-
آخرمیں اس نکتے کی بھی وضاحت کرتے چلیں کہ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب پٹروڈالروں کے ذریعے دو طرح کی سرگرمی انجام دینے ، اور امریکی حمایت حاصل کرنے کے باوجود نہ صرف علاقے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرسکا ہے اور نہ ہی سعودی عرب کے اقتدار کے ڈھانچے میں آل سعود کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے بلکہ ریاض کی پوزیشن علاقے میں کمزور ہوئی ہے اور آل سعود کے اقتدار کی بنیادیں بھی کمزور پڑگئی ہیں-