دینی معارف کی عالمی سطح پر مقبولیت بڑھی ہے : رہبر انقلاب اسلامی
رہبر انقلاب اسلامی نے دین اسلام کے اعلی و ارفع اصول و معارف کی آج کے انسانوں کو ضرورت اور اسی طرح عالم اسلام اورحتی غیر اسلامی معاشروں کی جانب سے ان معارف کو سراہنے اور اس کی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ،آج علمی مراکز یا حوزہ ہائے علمیہ کی اس تعلق سے ذمہ داری ماضی کی نسبت زیادہ سنگین ہوجاتی ہے-
رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ کی شام کو ایران کے حوزہ ہائے علمیہ کے سیکڑوں اساتذہ اور طلاب کے اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ حوزہ علمیہ ایک ایسا مرکز ہے کہ جہاں ایک عالم دین پرورش پاتا اور اس کی تربیت ہوتی ہے تاکہ وہ اسلامی اصول و احکام پر مکمل تسلط حاصل کرکے، لوگوں کو معارف اسلامی سے آگاہ کرنے کے لئے میدان عمل میں اترے-
مسلم ملکوں میں طلاب اور علما ، اسلامی و دینی معارف کی نشر و اشاعت اور اسے فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور اس درمیان حوزہ ہائے علمیہ کا کردار دیگر اسلامی اداروں سے زیادہ اہم اور بنیادی اہمیت کا حامل ہے- اسلامی معارف اور تعلیمات نیز اسلامی اخلاق سے معاشرے کو تہی دامن کرنے کی مغربی ثقافت و تمدن کی کوششوں کے سبب ، ماضی سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ طلبہ اورافاضل اس پالیسی کو ناکام بنانے میں منہمک ہوں -
دشمنان اسلام ہر طرح سے اس کوشش میں ہیں کہ اسلامی معاشروں کو ، دینی و اسلامی اقدار اور اصول واحکام سے دور کردیں تاکہ یہ اسلامی معاشرے بھی مغرب کے مادیت پسند اور مادہ پرست معاشرے کی طرح، صرف مادی اور دنیوی مسائل کے بارے میں الجھ جائیں، اور ان کا سارا ہم و غم بس دنیا ہو- ایسے حالات میں اسلامی معاشروں اور دیگر معاشروں میں انسانوں کی دینی و اخلاقی ثقافت کو تشخص عطا کرنے میں علما کا کردار اور ان کی موجودگی، ایک ناقابل انکار ضرورت ہے-
حوزہ ہائے علمیہ یا علمی مراکز اپنی ذمہ داریوں اور مشن کی بنیاد پر، طلاب کرام کی پرورش اور تربیت کے ذریعے اسلامی معاشروں اور دیگر معاشروں میں اسلامی معارف کی نشر و اشاعت اور اس سے لوگوں کو آگاہ کرنے میں اہم اور بنیادی کردار کے حامل ہیں- مثال کے طور پر پہلوی حکومت کے دور کے ایرانی معاشرے کی نسبت، آج کے ایرانی معاشرے میں دینی معارف کو جو استحکام اور فروغ حاصل ہوا ہے، وہ ہرگز قابل موازنہ نہیں ہے-اور آج اسلامی جمہوریہ ایران کے معاشرے میں دینی و اسلامی معارف کی تبلیغ اور نشر و اشاعت، عوام کے لئے ایک بنیادی اصول میں تبدیل ہوگئی ہے-
آج حوزہ ہائے علمیہ ، طلبہ اور علماء کی کوششوں سے، اسلامی و ایرانی ثقافت، اسلامی و ایرانی تہذیب و تمدن، اسلامی و ایرانی طرز زندگی ، پورے ایرانی معاشرے میں رچ بس گیا ہے-اسی سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای حوزہ ہائے علمیہ کو اسلامی تعلیم و تربیت کا مرکز قرار دیتے ہوئے معاشرے میں اس کے گہرے اثر و رسوخ کے بارے میں فرماتے ہیں:عوام کو اسلامی اصول و معارف سے آگاہ کرنا حوزہ ہائے علمیہ کے فرائض میں سے ہے اور اس کے دیگر فرائض میں دینی و اسلامی معارف کو عوام کی زندگی میں پیادہ کرنا اور اسے عملی جامہ پہنانا ہے -
حوزہ ہائے علمیہ اور یونیورسٹیوں کے درمیان تعمیری تعاون اور رابطے کے سبب، معاشرے میں علماء اور طلبہ کے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہوا ہے- طلاب اور علمائے اسلام نے، معاشرے کے مختلف طبقوں خاص طور پر نئی نسلوں کے مطالبات کے منطقی جواب دینے کے ساتھ ہی، اسلامی معاشرے میں فرد کو گمراہی سے محفوظ رکھا ہے- مادہ پرستی ، ایک ایسی مشکل ہے کہ جس سے مغرب پسند معاشرہ دوچار ہے اور ایسے میں دینی معارف کی جانب مغربی جوانوں کی حرکت، غیر اسلامی معاشروں کا معارف اسلامی کو خیر مقدم کہنے کی علامت ہے- اسی تناظر میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ یہ تصور کہ لوگ دنیا کے مختلف علاقوں میں دینی معارف سے روگردان ہوگئے ہیں ایک غلط تصور ہے بلکہ اس کے برخلاف ان معارف کو سراہنے اور اس کی مقبولیت میں اور زیادہ اضافہ ہے-