ایٹمی معاہدہ باقی رکھنے کی ضرورت پر جرمنی کی تاکید
ایٹمی معاہدہ جولائی 2015 میں ویانا میں ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان طے پایا تھا اور اس پر جنوری 2016 سے عملدرآمد شروع ہوا تھا-
تاہم آٹھ مئی 2018 کو امریکہ کے اس معاہدے سے نکل جانے کے بعد، ایران کو توقع تھی کہ گروپ فور پلس ون کے اراکین خاص طور پر یورپی ٹرائیکا اور یورپی یونین، امریکہ کے توسط سے دوبارہ عائد کی گئیں ایٹمی پابندیوں کے اثرات میں کمی لانے کے لئے اپنے وعدوں پر عمل کریں گے لیکن گذشتہ ایک سال کے دوران بعض دکھاوے کے اقدامات اور بہت سے وعدے کرنے کے علاوہ یورپی یونین کی جانب سے کوئی بھی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے-
ایران نے یورپی ٹرائیکا اور یورپی یونین کے اس اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے کی بعض شقوں پر عملدر آمد روک دیا ہے اور ان کو ساٹھ دن کی مہلت دی ہے تاکہ وہ اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائیں- اگرچہ یورپی ممالک نے ایران کے اس الٹی میٹم پر ردعمل ظاہر کیا ہے تاہم اس وقت یورپی یونین کے ایک اہم ملک کی حیثیت سے جرمنی نے، ایٹمی معاہدے کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر تاکید کی ہے- جرمنی کے وزیر خارجہ ہایکو ماس نے ہفتے کے روز بیلڈ نامی جریدے کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ یورپی یونین کو اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے-
ایران کی جانب سے یورپی ملکوں کی بدعہدیوں کے جواب میں ایٹمی معاہدے کی بعض شقوں پر عمل نہ کرنے کی بابت جرمنی نے کہا ہے کہ تہران بقول اس کے جارحانہ رویہ اختیار نہ کرے- فرانس کے وزیر خارجہ جان ایوے لودریان نے بھی ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں کمی پر ردعمل کو ایک برا ردعمل قرارد یتے ہوئے تہران سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے سیاسی بلوغ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے کے تحت اپنے وعدوں پر عملدرآمد کا سلسلہ جاری رکھے- یورپی یونین اور یورپی ٹرائیکا یعنی جرمنی ، فرانس اور برطانیہ، ایٹمی معاہدے کو چند جانبہ معاہدے کا بہترین نمونہ قرار دیتے ہیں کہ جس نے عالمی امن و سلامتی کے تحفظ میں بہت زیادہ مدد کی ہے- یورپی ممالک امریکہ کے برخلاف یہ دعوی کر رہے ہیں کہ ایران نے ایٹمی معاہدے پر عمل نہیں کیا ہے اور اسے ایٹمی سرگرمیوں پر کنٹرول کے لئے موثر معاہدہ قرار نہیں دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ایران نے نہ صرف ایٹمی معاہدے کے دائرے میں عمل کیا ہے بلکہ یہ معاہدہ علاقائی اور عالمی سطح پر کشیدگی کو روکنےکے حوالے سے بھی اپنے اہداف پورے کرنے میں کامیاب رہا ہے-
یورپ کی نگاہ میں ایٹمی معاہدہ یورپ کی سفارتی کامیابی کی بھی اہم سند کی حثیت رکھتا ہے اور اس کی ناکامی، عالمی سطح پر یورپ کی سب سے بڑی سیاسی اور سفارتی شکست کے مترادف ہو گی۔ لیکن عملی طور پر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یورپ اپنی ساکھ کی خاطر بھی ایٹمی معاہدے کو بچانے کے لیے کچھ خرچ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یورپ کے اسی رویے پر ایران نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے اور ایران کے ردعمل کے تناظر میں یورپی یونین کی خارجہ تعلقات کونسل نے، ایٹمی معاہدے کے حوالے سے ایران کی پالیسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یورپی یونین سے تہران کی مقرر کردہ مہلت پر توجہ دینے کی اپیل کی ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ تعلقات کونسل کی ویب سائٹ کے مطابق ایران کا ایٹمی معاہدے کے تعلق سے اٹھایا گیا قدم، اس کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہے نہ کہ اس عظیم عالمی معاہدے کو ختم کرنے کے لئے - لیکن ایران اس نتیجے پر پہنچا ہے موجودہ صورتحال ناقابل قبول ہے- ایران کو یورپ اور چین پر دباؤ ڈالنے کے ذریعے یہ امید ہے کہ یہ ممالک، ایران کے ساتھ تعلقات کے تحفظ کے لئے نمایاں اقتصادی اقدامات انجام دیں گے-
ایران کو یہ توقع تھی کہ یورپیوں کی بعض تدابیر خاص طور پر انسٹییکس سے موسوم مخصوص مالیاتی نظام کو مہینوں قبل انجام پاجانا چاہئے تھا لیکن ابھی تک یورپی فریق اس سلسلے میں لیت و لعل سے کام کر رہے ہیں- یہی سبب ہے کہ تہران ایٹمی معاہدے کے یورپی فریقوں کی نیت اور اس کی انجام دہی کے بارے میں شکوک و شبہات سے دوچار ہے اسی لئے ایران نے بھی اس کے ردعمل میں ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں کمی کا ارادہ کیا ہے- اس وقت ایران نے ایٹمی معاہدے کے تعلق سے یورپی ملکوں کو ساٹھ دن کی مہلت دی ہے اور اس وقت گیند یورپ کی زمین میں ہے اور اگر یہ ممالک واقعا اس عالمی سمجھوتے کا تحفظ چاہتے ہیں تو ان کو چاہئے کہ جلد از جلد اور ساٹھ دن کی مہلت ختم ہونے سے قبل ہی ٹھوس اور موثر اقدام میں عمل لائیں-