May ۱۴, ۲۰۱۹ ۱۶:۵۵ Asia/Tehran
  • یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں ایٹمی معاہدے کی مکمل پابندی پر تاکید

یورپی یونین اور یورپی ٹرائیکا یعنی جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ہمیشہ ایٹمی معاہدے کی حمایت کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد پر تاکید کی ہے-

امریکہ، مئی 2018 کو  ایٹمی معاہدے سے نکل گیا اور یورپی ملکوں نے بھی اس معاہدے کے تحفظ کے لئے اپنے وعدوں پر عملدرآمد میں مسلسل تاخیر اور لیت و لعل سے کام لیا، جس کی بنا پر نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ایران نے بھی جوابی قدم اٹھایا جس کے نتیجے میں اس وقت ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے حوالے سے یورپی یونین ، بڑے چیلنج سے دوچار ہوگئی ہے-

اسی سلسلے میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے ہفتے کے روز بریسلز میں ایک اجلاس طلب کیا - یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے اس اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اس اجلاس میں ایٹمی معاہدے کے یورپی فریقوں نے مخصوص مالیاتی یورپی نظام انسٹیکس کو  آئندہ چند ہفتوں میں آپریشنل کرنے کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا ہے- یورپی یونین کے تمام ممبر ممالک اس مسئلے میں پر‏عزم ہیں کہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر مکمل طور پر عملدرآمد کیا جائے- جب تک کہ ایران ایٹمی معاہدے کے تعلق سے اپنے وعدوں کا پابند رہے گا ، یورپی یونین بھی اس معاہدے پر مکمل عملدرآمد کی حمایت کرتی رہے گی-

موگرینی نے اسی طرح مزید کہا کہ جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی نے ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی پابندی کی تصدیق کی ہے اور یہی وہ واحد وہ ادارہ ہے جو ایران کے توسط سے ایٹمی معاہدے پر کاربند رہنے کے بارے میں فیصلہ سنا سکتا ہے- موگرینی نے ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ سے زیادہ صبر و تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے تاکہ بات فوجی محاذ آرائی تک نہ پہنچ سکے-یورپی یونین کی اس اعلی عہدیدار کا موقف ، کہ جو یورپی یونین کے ممبر ملکوں کے عزم و ارادے کا غماز ہے، یورپی ملکوں کے لئے ایٹمی معاہدے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے - یورپی یونین اور یورپی ٹرائیکا،  ایٹمی معاہدے کو چند فریقی معاہدے کا ایک آئیڈیل قرار دیتے ہیں کہ جس نے عالمی امن و سلامتی کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا ہے- 

امریکہ ،کہ جو کہہ رہا ہے کہ ایران نے ایٹمی معاہدے پر عمل نہیں کیا ہے اور اسے وہ ایک برا معاہدہ سمجھتا اور ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے موثر قرار نہیں دیتا، اس کے اس دعوے کے  برخلاف یورپی یونین کا خیال ہے کہ ایران نے نہ صرف ایٹمی معاہدے کے دائرے میں اپنے وعدوں پر بھرپور عمل کیا ہے بلکہ ایٹمی معاہدے کے دائرے میں عالمی و علاقائی سطح پر کشیدگی اور تنازعے کی روک تھام کے حوالے سے بھی اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیابی سے عمل کیا ہے- یورپی ملکوں کے نقطہ نگاہ سے ایٹمی معاہدہ ، یورپ کی سفارتکاری کا اہم کارنامہ شمار ہوتا ہے اور ایٹمی معاہدے کی شکست، درحقیقت عالمی سطح پر یورپی یونین کی سفارتی و سیاسی پوزیشن کے لئے بڑی ناکامی ہوگی- 

 ایٹمی معاہدے کے تعلق سے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزیوں اور اسے ختم کرنے کی کوششوں پر یورپی ملکوں میں سخت ناراضگی پائی جاتی ہے- بریسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو کی غیر متوقع شرکت پر ان ملکوں نے بہت سرد مہری کا مظاہرہ کیا اور اس سے بے توجہی برتی-روزنامہ واشنگٹن کی ویب سائٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو کہ جو کسی اطلاع اور پروگرام کے بغیر بریسلز اجلاس میں شریک ہوئے تاکہ شاید برطانیہ ، جرمنی اور فرانس کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ایران اور ایٹمی معاہدے کے بارے میں تبادلۂ خیال کرسکیں لیکن ان ملکوں نے اسے نظرانداز کیا حتی پمپئو کے ساتھ تصویریں بھی نہیں لیں- 


ان تمام مسائل کے باوجود یورپی ملکوں نے عملی طور پر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اس اہم سمجھوتے کی بقا کے لئے چنداں قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں- اس عالمی معاہدے کے تعلق سے اپنے وعدوں پرعمل کرنے میں یورپی فریقوں کا یہی لیت و لعل ، اس بات کا باعث بنا ہے کہ ایران نے گذشتہ ہفتے اعلان کردیا کہ ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں وہ اپنے کئے گئے وعدوں میں کمی لا رہا ہے- اور اب ایران جوہری معاہدے کی شقوں 26 اور 36 کے مطابق، دوسرے فریقین کی بد عہدی کی صورت میں مجموعی اور جزوی طور پر اپنے وعدوں پر عمل نہیں کرے گا- ایران کے اس موقف کی روس نے حمایت کی ہے اسی سلسلے میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے مشترکہ ایٹمی معاہدے پر یورپی ممالک کی طرف سے عمل نہ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو مشترکہ ایٹمی معاہدے کی بعض شقوں سے نکلنے کا پورا حق حاصل ہے۔ ایران نے جامع ایٹمی معاہدے کی مکمل پاسداری کی ہے لیکن اسے یہ توقع ہے کہ یورپی فریق بھی یہی کام انجام دیں اور اس معاہدے پر مکمل طور پر عمل کریں- 

اس طرح سے ایران کو توقع ہے کہ یورپی ممالک جلد ازجلد ایٹمی معاہدے کے تعلق سے اپنے وعدوں پر عمل کریں گے لیکن اگر وہ بدستور ماضی کی طرح، تاخیر اور لیت و لعل جیسی پالیسی پر عمل پیرا رہے تو پھر انہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ تہران سے ایٹمی معاہدے کی پابندی کئے جانے کی توقع رکھیں- 

 

  

ٹیگس