جاپانی وزیر اعظم کا دورہ ایران
اس وقت ایران کی سفارتی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور تمام نگاہیں جاپان کے وزیر اعظم کے دورہ ایران پر لگی ہوئی ہیں
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد یہ کسی جاپانی وزیر اعظم کا پہلا دورہ تہران ہے کہ جو نہایت حساس ترین دور میں انجام پا رہا ہے-
ایران اور جاپان کے تعلقات کو نوے برس ہو رہے ہیں اور اس دوران دونوں ملکوں کی ایک دوسرے سے زیادہ تر توقعات پوری ہوئی ہیں-جاپانی وزیراعظم کا دورہ تہران ہفتوں پہلے سے علاقائی و عالمی حلقوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور اس دورے کا مقصد امریکہ و ایران کے سخت کشیدہ تعلقات میں ثالثی کا کردار ادا کرنا ہے- امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ ٹوکیو اور جاپانی وزیراعظم کے ساتھ ان کی گفتگو کے چند دن بعد آبے شنزے کی ایرانی حکام سے ملاقات اور صلاح و مشورے اس بات کا باعث بنے ہیں کہ دنیا کے صحافتی حلقے اس دورے کو ایران و امریکہ کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی سے مربوط سمجھ رہے ہیں-
ہندوستان ،جنوبی کوریا اور چین سمیت ایرانی تیل کے کچھ بڑے خریداروں اور جاپان کی جانب سے تہران سے تیل کی خریداری پرعائد پابندیوں سے استثنی کے مطالبے نے ثابت کردیا ہے کہ ٹوکیو اور واشنگٹن کے اسٹریٹیجک تعلقات کے باوجود جاپان کی لیبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے حکام اپنے قومی تحفظات کی بنا پر ایران کے خلاف وائٹ ہاؤس کی پابندی عائد کرنے کی پالیسیوں کو قبول کرنے اور اس کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اسے اپنے قومی مفاد کے منافی سمجھتے ہیں- جاپانی سیاسی امور کے ماہر کویچویرو تاناکا کا کہنا ہے کہ : آبے ، امریکی پابندیوں کے باوجود ایران سے تیل کی خریداری کے لئےعملی قدم اٹھا کر اپنی خودمختاری ثابت کرسکتے ہیں اورایٹمی سمجھوتے پر عمل درآمد کی حمایت میں ایرانی حکام کا اعتماد حاصل کرسکتے ہیں-
اسی بنا پر حکومت جاپان امریکہ سے ایرانی تیل کی خریداری پر عائد پابندیوں سے استثنی کی درخواست کے ساتھ ہی زرعی مصنوعات کی منڈی میں امریکی کمپنیوں کی زیادہ رسائی اور کسٹم ڈیوٹی میں کمی کی ٹرمپ کی درخواست کی مخالفت کی ہے- ان حالات میں جب حکومت ٹوکیو جاپان میں امریکی کمپنیوں کا شیئر بڑھانے کے لئے واشنگٹن کی زیادہ پسندی کی مخالفت کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہے، آبے کے دورہ تہران کو مغربی ایشیا میں ایک فیصلہ کن اور موثر طاقت کے عنوان سے ایران کے ساتھ ہمہ گیر تعاون کو فروغ دینے کے لئے جاپان کی مستقل اسٹریٹیجی کے تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ جو تہران کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں چین اور جاپان میں ایک دوڑ شروع کر سکتی ہے-
یہ نظریہ بھی سامنے آرہا ہے کہ جاپان کے وزیراعظم تہران کے دورے میں مغربی و مشرقی ایشیا کے درمیان تعلقات کے فروغ کی اسٹریٹیجی کے تحت ایٹمی سمجھوتے پر عمل درآمد کی ایک بار حمایت کر کے ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جس سے ایران سے جاپان کے لئے تیل کی برآمدات کا سلسلہ قائم رہے- واضح رہے کہ ایٹمی سمجھوتے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بھی حمایت حاصل ہے- جاپان کی برسراقتدار لیبرل ڈیموکریٹک پارٹی سیاسی لحاظ سے امریکہ کے تسلط سے باہر نکلنے کے لئے سیاسی لحاظ سے بھی براعظم ایشیا کے حالات میں با اثر بازی گر بن جائے گی اور اس اسٹریٹیجی سے علاقے میں ٹوکیو کی پوزیشن مضبوط ہونے کے ساتھ ہی چین کا حریف بننے کی صلاحیت و توانائی بھی بڑھے گی جو جاپان کے آئندہ انتخابات میں حریفوں کے مقابلے میں آبے کی پارٹی کی پوزیشن مضبوط بنا سکتی ہے-