امریکہ کی خارجہ پالیسی میں متضاد رویے۔ امریکی انتظامیہ کا آوے کا آوا ٹیڑھا
ٹرمپ کے دورۂ صدارت مین امریکہ کی خارجہ پالیسی میں ایک نمایاں بات جو ہے وہ یہ ہے کہ اس میں بہت زیادہ حد تک تضاد پایا جاتا ہے-
ان ہی آشکارہ موارد میں سے ایک ، ترکی کی روس سے ، ایس 400 میزائل سسٹم کی خریداری کا مسئلہ ہے کہ جس پر واشنگٹن مسلسل اعتراض کر رہا اور دھمکیاں دے رہا ہے۔ اسی بنا پر مہینوں سے امریکہ اور ترکی کے تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے اور امریکہ نے ترکی کو اسی وجہ سے سخت پابندیوں کی دھمکی دی ہے-
ٹرمپ نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں اس سلسلے میں مکمل نیا رخ اختیار کیا ہے - امریکی صدر نے گروپ 20 کے سربراہی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ واشنگٹن نے ترکی کے ساتھ ایس 400 میزائل سسٹم کی خریداری کے تعلق سے غلط رویہ اپنایا ہے - ٹرمپ نے کہا کہ اوباما کے دور میں ترکی کے ساتھ منصفانہ برتاؤ نہیں کیا گیا - ترکی یہ چاہتا تھا کہ پٹریاٹ میزائل سسٹم کو امریکہ سے خریدے۔ لیکن اوباما کے دور میں، انقرہ کی اس خواہش کی مخالفت کی گئی - اور جب اس کے بعد ترکی نے یہ چاہا کہ کسی اور ملک سے میزائل خریدیں تو واشنگٹن نے اعلان کردیا کہ اب تم ہمارے میزائل سسٹم خرید سکتے ہو، اوباما انتظامیہ کو اس طرح سے برتاؤ نہیں کرنا چاہئے تھا - منصفانہ رویہ اپنانا چاہئے تھا-
درحقیقت ٹرمپ کی یہ کوشش ہے کہ ایس 400 میزائل سسٹم کی خریداری سے متعلق واشنگٹن اور انقرہ کے درمیان جو کشیدگی پائی جاتی ہے اسے اپنی غلط پالیسیوں اور اقدامات کا نتیجہ قرار دینے کے بجائے، اس کا قصوروار اوباما حکومت کو ٹہرائیں- ٹرمپ نے اس نکتے کا اعتراف کیا ہے کہ واشنگٹن کے حکام نے اس وقت کہ جب ترکی ، روس کے ساتھ ایس 400 کی خریداری کے لئے مذاکرات کر رہا تھا، تو کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا لیکن جب یہ معاہدہ طے پایا گیا تو پھر سخت موقف اپنا رہا ہے- اور نیٹو کے سسٹم سے اس میزائل سسٹم میں مطابقت نہ ہونے کی بہانے سے اس کے منسوخ کئے جانے کا مطالبہ کر رہا ہے- اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے اپنے بعد والے بیان میں کہا ہے کہ واشنگٹن ایس 400 کی خریداری کے سبب روس سے ناراض ہے اور ترکی کو یہ معاملہ ترک کردینا چاہئے- ٹرمپ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایس 400 سسٹم کی خریداری سے متعلق واشنگٹن کو ترکی کے خلاف ردعمل اپنانے میں پیچیدہ حالات کا سامنا ہے کہا کہ واشنگٹن اس سلسلے میں مختلف راہ حل کا جائزہ لے گا ، اور ممکن ہے واشنگٹن ، انقرہ کے خلاف پابندیاں بھی عائد کردے-
ٹرمپ کے موقف میں جہاں ایک طرف ایس 400 کے مسئلے میں انقرہ کو حق دیا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب پنٹاگون صراحت کے ساتھ ترکی کو ایس 400 کی خریداری پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دے رہا ہے- اور حتی اس نے ترکی کو ایف 35 لڑاکا طیاروں کی فروخت پر پابندی جیسے احکام نافذ کردیئے ہیں جس سے اس سلسلے میں ٹرمپ حکومت کے متضاد رویے کی نشاندہی ہوتی ہے- ساتھ ہی یہ کہ اس طرح کے رویے، فریق مقابل کے لئے الجھن کا باعث بن گئے ہیں اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ واشنگٹن کا حقیقی اور حتمی موقف کیا ہے؟- البتہ ایس 400 میزائل سسٹم کی خریداری سے متعلق ترکی کی حکومت نے ٹھوس موقف اپنایا ہے اور اس مسئلے پر تاکید کر رہا ہے کہ اگر انقرہ کے خلاف پابندیاں عائد کر بھی دی گئیں پھر بھی وہ روس سے میزائل سسٹم کی خریداری کرنے میں پرعزم ہے- ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بھی اس بارے میں کہا ہے کہ روس سے ایس 400 میزائل سسٹم کو حاصل کرنے میں انقرہ پیچھے نہیں ہٹے گا اور توقع ہے کہ یہ سسٹم رواں سال جولائی کے پہلے نصف میں ہم حاصل کرلیں گے-
اہم مسئلہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی میں ٹرمپ انتظامیہ کا یہ متضاد رویہ صرف ترکی کے توسط سے روس کے ایس 400 میزائل سسٹم کی خریداری تک محدود نہیں ہے بلکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں یہ رویہ، شمالی کوریا کے ایٹمی مسئلے سے لے کر چین کے ساتھ تجارتی جنگ اور ایران کے ایٹمی معاہدے تک کو شامل ہے جس سے ٹرمپ انتظامیہ کی دوغلی پالیسی اور تضاد بیانی آشکارہ ہوجاتی ہے-
ٹرمپ بہت زیادہ ٹوئیٹ کرتے ہیں اور انہوں نے بہت زیادہ انٹریوز بھی انجام دیئے ہیں اور یہی مسئلہ باعث بنا ہے کہ ان کی باتوں میں بہت زیادہ غلطیاں اور تضاد دیکھنے کو مل رہا ہے- اگرچہ وہ اس بات کے مدعی ہیں کہ ان کا یہ رویہ جان بوجھ کر اور فریق مقابل کو الجھن اور پریشانی میں ڈالنے کے لئے ہے، اس کے باوجود حقیقت کچھ اور ہے- ٹرمپ نہ تو خود منطقی اور معقول ذہنیت کے مالک ہیں اور نہ ہی ان کی انتظامیہ کے افراد ہم آہنگ اور منظم پالیسی کی بنیاد پر عمل کرتے ہیں- اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ امریکی انتظامیہ کا آوے کا آوا ٹیڑھا ہے-