خلیج فارس میں امریکی اتحاد میں شمولیت سے جرمنی کا انکار
خلیج فارس میں کشدگی میں شدت کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ ایک بحری اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خلیج فارس میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے اس جیو اسٹریٹیجک علاقے میں کشیدی بڑھ جانے اور آبنائے ہرمز میں جہاز رانی کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی کئے جانے پر ایران کے ذریعہ برطانوی تیل بردار بحری جہاز روکے جانے کے بعد امریکہ اور برطانیہ خلیج فارس میں جہازرانی کی نام نہاد سیکورٹی کے لئے ایک بحری اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
البتہ اس اتحاد کی تشکیل کے سلسلہ میں امریکہ کو اپنے یورپی اتحادیوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔ جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اپنے ملک کی طرف سے بحری اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ ”جرمنی خلیج فارس کے علاقہ میں جہازرانی کی سیکورٹی کے لئے ایک اتحاد کی تشکیل کی امریکی تجویز کے حق میں نہیں ہے۔“
امریکہ ایرانو فوبیا کو ہوا دے کر غیرعلاقائی مداخلت پسند طاقت کی حیثیت سے علاقہ میں اپنی موجودگی اور ایک اتحاد کی تشکیل کا جواز پیش کرنا چاہتا ہے۔ اسی سلسلہ میں آبنائے ہرمز میں برطانوی تیل بردار بحری جہاز ”اسٹینا امپیرو“ روکے جانے کا مسئلہ خلیج فارس میں ایک بحری اتحاد کی تشکیل کے لئے امریکہ اور اس کے اسٹریٹیجک حلیف ملک برطانیہ کے ایک حربہ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ بنا بریں، 25 جولائی کو امریکہ کی مرکزی کمان، سینٹکام، کے دہشت گردانہ ہیڈکوارٹر میں ایک بین الاقوامی میٹنگ منعقد ہوئی جس کا موضوع خلیج فارس میں جہازوں کی آمد و رفت کی سیکورٹی تھا۔ متحدہ عرب امارات جیسے بعض عرب ممالک اور برطانیہ سمیت کچھ یورپی ممالک ریاست فلوریڈا کے شہر ٹیمپا میں منعقدہ اس نشست میں شریک ہوئے اور ٹرمپ حکومت کے ”سینٹینل آپریشن“ کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا گیا۔ ٹرمپ حکومت کا دعویٰ ہے کہ سینٹینل آپریشن منصوبہ خلیج فارس میں جہازرانی کی سیکورٹی کے لئے بنایا گیا ہے۔ سینٹکام کے ترجمان جان رِگسبی نے دعویٰ کیا ہے کہ ”سینٹینل آپریشن“ خلیج فارس میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات کے نتیجہ میں اور بحری آمد و رفت کی سیکورٹی کی تقویت کے لئے تیار کیا گیا ہے۔“ انہوں نے بین الاقوامی آبی راستوں میں کشیدگی میں کمی، بحری آمد و رفت میں آسانی اور آزادی کو اس منصوبہ کے مقاصد میں شامل قرار دیا۔
برطانوی حکومت نے آبنائے ہرمز میں اپنے تیل بردار جہاز کو روکے جانے کے بعد خلیج فارس اور آبنائے ہرمز میں آمد و رفت کی سیکورٹی کے لئے یورپی ممالک کی بحری افواج کی مدد سے ایک جداگانہ آپریشن کی بات کہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ اپنے تیل ٹینکر کی آزادی کے لئے بھی اصرار کر رہا ہے اور برطانیہ کے نئے وزیر خارجہ ڈومینِک راب نے برطانوی تیل ٹینکر کی آزادی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ تیل ٹینکروں کا تبادلہ انجام نہیں پائے گا۔
برطانیہ اب امریکہ کے ساتھ مل کر کثیرقومی بحری اتحاد کے قالب میں خلیج فارس میں جہاز رانی کی نام نہاد سیکورٹی کا خواہاں ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ نے خلیج فارس میں جہازرانی کی نام نہاد سیکورٹی کے لئے برطانیہ کی طرف سے پیش کئے گئے منصوبہ کے بارے میں دعویٰ کیا کہ امریکہ یورپ کی سربراہی میں خلیج فارس میں سیکورٹی کے منصوبہ کی حمایت کرے گا۔ برطانوی وزیر خارجہ نے ایسی صورت حال میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ بہت سے ممالک نے اس منصوبے کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اِس کی ایک واضح مثال اس اتحاد میں شرکت سے جرمنی کا انکار ہے۔ جرمنی کو بخوبی معلوم ہے کہ خلیج فارس سے متعلق اس منصوبہ کی حمایت کا مسئلہ ٹرمپ حکومت کی زیادہ سے ”زیادہ سے دباؤ“ کی پالیسی کے تحت ایران کے خلاف دباؤ میں اضافہ کے لئے امریکہ کا صرف ایک حربہ ہے۔ اسی لئے جرمنی امریکہ کے کھیل میں شریک ہونا نہیں چاہتا۔ جرمنی کے وزیر خارجہ نے چند دن پہلے اس بارے میں کہا تھا کہ ”آبنائے ہرمز کے بارے میں ہمارے اقدامات یورپی علامت کے حامل ہونے چاہئیں اور یہ کہ ہم امریکہ کی ”زیادہ سے زیادہ دباؤ“ کی پالیسی میں شرکت نہیں کریں گے۔“
قابل ذکر ہے کہ ایران خود کو خلیج فارس سمیت خطہ کی امن و سلامتی قائم رکھنے کا پابند سمجھتا ہے اور ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے بھی کہا ہے کہ ”یہ ایران ہی ہے جو خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کی سیکورٹی کا ضامن ہے۔“