ترکی، شام کے ساتھ تعلقات بحالی کا مطالبہ جاری
شام کے ساتھ سیاسی تعلقات بحالی کا ترکی کی بڑی بڑی پارٹیوں کے مطالبہ کا سلسلہ جاری ہے۔
ریپبلکن پیپلز پارٹی کے نائب صدر فتحی آچیکل نے بھی شام کے ساتھ ترکی کے سفارتی تعلقات کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ ترک حکومت کو شام کے ساتھ سفارتی تعلقات جلد سے جلد بحال کر کے ایسی پالیسی اختیار کرنی چاہئے جس سے شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہوسکے۔
شام کے ساتھ ترکی کے سیاسی تعلقات بحالی کا موضوع نیا موضوع نہیں ہے بلکہ پچھلے کئی برس کے دوران ترکی کے عوام کے علاوہ ترکی کی اہم پارٹیوں نے بھی اس موضوع کو حکومت کے سامنے اٹھایا ہے۔ ترکی کی اپوزیشن پارٹیاں حریت پسند اقوام کے خلاف مغرب کی پالیسیوں، خاص طور سے امریکہ کی پالیسیوں، اور علاقے میں اس تسلط پسند ملک یعنی امریکہ کی بحران پیدا کرنے والی پالیسیوں اور مختلف اقوام کو تباہ و برباد کرنے کی اس کی کوششوں کی وجہ سے شام کی قانونی حکومت کے خلاف ترک حکومت کی امریکہ نواز پالیسیوں پر تنقید کرتی رہی ہیں۔ ترکی کی اپوزیشن پارٹیوں کا کہنا ہے کہ امریکی پالیسیاں صرف شام کی تقسیم پر منتج ہوں گی اور یہی امر ترکی کی قومی سلامتی کے لئے منفی نتائج کا سبب بنے گا۔ علاوہ ازیں، اب تک شامی حکومت کو کمزور کرنے کی امریکہ کی پالیسیاں صرف لاکھوں شامی پناہ گزینوں کے ترکی میں پناہ لینے کا باعث بنی ہیں۔
ان حقائق کے پیش نظر، ترکی کی اپوزیشن پارٹیوں کا کہنا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ترک حکومت علاقے میں اپنی ضرر رساں پالیسیوں کو ختم کرے۔ کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ترکی علاقہ کے ممالک کے خلاف سازشوں میں امریکہ کا بھی ساتھ دے اور علاقائی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات بھی رکھے۔ علاوہ ازیں، ہمسایہ ممالک کے امور میں فوجی مداخلت کے خلاف بھی ترکی میں سیاسی پارٹیاں اور عوام احتجاج کرتے رہے ہیں۔
ترک عوام کے علاوہ، ریپبلکن پیپلز پارٹی نے بھی، جو ترکی کی سب سے بڑی حکومت مخالف پارٹی ہے، پارلیمنٹ میں پیش ہونے والے شام اور عراق سمیت ہمسایہ ممالک کے امور میں فوجی مداخلت کے ہر بِل کی مخالفت کی ہے۔ ترکی کی ریپبلکن پیپلز پارٹی کے سربراہ کمال قُلِیچ دار اوغلُو نے ترکی کے لئے شام کے اتحاد و یکجہتی کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ملک کے صدر رجب طیب اردوغان سے شام کی ارضی سالمیت کے تحفظ اور شام میں تشدد روکنے کی غرض سے دمشق کے ساتھ فوراً تعلقات برقراری کا مطالبہ کیا ہے۔ دریں اثنا، علاقائی امور کے ترک ماہرین نے ترکی کی فوج کے ذریعہ شام کی زمین پر قبضے کی پالیسیوں کو ترکی کے قومی مفادات کے منافی قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ترکی کے عسکری امور کے ماہر اور سابق ایڈمرل تُورکر ارتَرْکْ نے ریڈیو تہران کی ترک سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”ترک حکومت نے شام کے بارے میں اپنی پالیسیوں میں بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں اور اس سلسلہ میں حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ درحقیقت، ترکی کو علاقائی ممالک کے ساتھ، خاص طور سے شام کے ساتھ، دوستانہ تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔
مجموعی طور پر، ترک حکومت مخالف پارٹیوں اور عوام کی طرف سے شام پر قبضہ کی پالیسیوں کی مخالفت کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ اگر ترک حکومت نے شام سے متعلق اپنی پالیسیوں کو نہیں بدلا تو یہ مسئلہ ترک حکومت اور عوام کے لئے ایک بڑی مشکل میں تبدیل ہوجائے گا۔