ٹرمپ کی دباؤ کی پالیسیوں پر یورپی کونسل کے سربراہ کی تنقید
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے توسط سے ایٹمی معاہدے سمیت متعدد سمجھوتوں سے نکل جانے اور معاشی طاقتوں کے ساتھ تجارتی جنگ، عالمی سطح پر بہت زیادہ کشیدگی وجود میں آنے کا باعث بنی ہے-
یہی مسئلہ یورپی یونین کے اعلی حکام کے سخت ردعمل کا سبب بنا ہے- اس سلسلے میں یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک نے، امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو دنیا میں کشیدگی پھیلانے کا باعث قرار دیا ہے- ٹسک نے ہفتے کو فرانس کے شہر بیاریٹز میں گروپ سیون کے سربراہی اجلاس کے شروع ہونے سے پہلے کہا کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے بلکہ اس سے مغربی ملکوں کے درمیان خلیج پیدا ہوگئی ہے- ٹسک نے اسی طرح گروپ سیون کے رکن ملکوں کے درمیان تجارتی جنگ کو بھی ان کے درمیان اعتماد ختم ہونے کا سبب قرار دیا- یورپی کونسل کے سربراہ نے خبردار کیا کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنے کو بطور ہتھکنڈہ استعمال کریں گے تو یہ مسئلہ ممکن ہے کہ پوری دنیا کے لئے خطرہ ہوجائے-
جنوبی فرانس کے شہر بیاریٹز میں ہونے والے جی سیون کے سربراہی اجلاس میں برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی، بین الاقوامی تجارت اور ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے کی صورتحال نیز روس کی اس گروپ میں واپسی جیسے معاملات پر غور کیا جارہا ہے۔اس موقع پر فرانس اور امریکہ کے صدور کے درمیان گفتگو بھی متوقع ہے جس میں ایٹمی معاہدے کے بارے میں دونوں ملکوں کے اختلافات حاوی رہنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یکطرفہ پالیسیوں اور اپنے نظریات گروپ کے دیگر ارکان پر مسلط کرنے کی کوششوں کے تناظر میں، فرانس میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے دوران باہمی چپقلش کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔ دوسری جانب جی سیون اجلاس کے موقع پر فرانس کے مختلف شہروں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مظاہرے شدت اختیار کر گئے ہیں اور کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئی ہیں-
فرانس میں جی سیون کے اجلاس کے انعقاد کے موقع پر ٹرمپ کی پالیسیوں پر یورپی کونسل کے سربراہ کے تنقید آمیز موقف کو، دوچنداں اہمیت حاصل ہوگئی ہے- درحقیقت 2019 میں جی سیون یعنی جرمنی، امریکہ، فرانس ، اٹلی، جاپان ، برطانیہ اور کینیڈا کے اجلاس کو، عالمی بحرانوں کے مقابلے میں تمام رکن ملکوں کے اتحاد کے لئے دشوار امتحان سمجھا جا رہا ہے- جی سیون کا سربراہی اجلاس ہفتے کے روز سے فرانس کے جنوب مغربی شہر بیاریٹز میں شروع ہوا ہے جو پیر تک جاری رہے گا- اس تین روزہ اجلاس کی سربراہی فرانس کے صدر امانوئل میکرون انجام دے رہے ہیں- یہ اجلاس ایسے حالات میں منعقد ہو رہا ہے کہ ٹرمپ اور اس گروپ کے دیگر رکن ملکوں کے درمیان اختلافات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں - چین کے ساتھ ٹیرف کی جنگ ، ماحولیات کے مسائل اور ایٹمی معاہدے کے مسائل کو گروپ سیون کے درمیان بہت اہم سمجھا جا رہا ہے- تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ گروپ سیون کا پینتالیسواں سربراہی اجلاس، امریکہ اور یورپ کے رکن ملکون کے درمیان، آزاد تجارت، ایٹمی معاہدے کے سمجھوتے اور ایران کے ساتھ امریکہ کے نازیبا رویوں اور آب و ہوا کی تبدیلی جیسے مسائل میں شدید اختلافات کے باعث کسی بیان کے صادر کئے بغیر کئے ہی ختم ہوجائے گا-
یہ مسئلہ 2018 میں کنیڈا کے شہرکبک میں جی سیون کے سربراہی اجلاس کے تجربے کے پیش نظر چنداں خلاف توقع بھی نہیں ہے- کینیڈا میں ٹرمپ اور گروپ سیون کے دیگر ملکوں کے سربراہوں کے درمیان اختلافات اور چپقلش اس حد تک نمایاں اور واضح تھی کہ کہ بعض ماہرین نے اسے گروپ سیکس پلس ون 1+6 کا نام دیا کہ جو دنیا کے اہم مسائل کے تعلق سے اس گروپ کے دیگر اراکین کے مواقف سے امریکی مواقف کے سازگار نہ ہونے کے آئینہ دار تھے- کینیڈا، فرانس اور جرمنی کے ساتھ امریکہ کے شدید اختلافات کے سائے میں ہونے والے جی سیون کے اجلاس میں شریک امریکی صدر نے، امریکہ روانگی سے قبل کینیڈا کے وزیراعظم کے بیان پر شدید برھمی ظاہر کرتے ہوئے اجلاس کے اختتامی بیان کی حمایت واپس لینے کا اعلان کیا تھا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ فرانس میں گروپ سیون کے اجلاس میں بھی یہی اختلافات اور زیادہ کھل کر سامنے آئیں گے-
شاید یہی سبب ہے کہ یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک نے ٹرمپ پر کڑی نکتہ چینی کی ہے کہ جو خود پسندی اور غرور کے ساتھ نہ صرف گروپ سیون کے اجلاس میں پیش کئے گئے مسائل کے تعلق سے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ پوری بے توجہی کے ساتھ اس گروہ کے دیگر رکن ملکوں کو اپنی غیر منطقی پالیسیوں اور اقدامات کی پیروی کرنے کو کہتے ہیں-