دیگر ممالک میں امریکی مداخلت کا ٹرمپ کا اعتراف
امریکہ سرد جنگ سے پہلے اور اس کے بعد بھی ہمیشہ دیگر ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ اس مداخلت کا ایک اہم مظہر مغرب نواز اور اس کے وفادار عناصر کو اقتدار میں لانے کے لئے دیگر ممالک کے انتخابات میں مداخلت ہے۔
اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعہ روس کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کے دوران امریکہ کے اس عمل کے اعتراف کی بات سامنے آئی ہے۔ امریکی اخبار ”واشنگٹن پوسٹ“ نے آج کے شمارہ میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ نے سنہ 2017 میں روسی عہدیداروں سے کہا تھا کہ ان کو 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت کے بارے میں کوئی تشویش نہیں ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ”ٹرمپ نے یہ بات وہائٹ ہاؤس میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور امریکہ میں اس وقت کے روسی سفیر سرگئی کِسلِیاک کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے دوران کہی تھی۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ بھی دیگر ممالک کے معاملات میں یہی کام کرتا ہے۔
دیگر ممالک کے انتخابات میں امریکی مداخلت کے ٹرمپ کے اعتراف سے کئی مسائل ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ مثلاً یہی مسئلہ کہ واشنگٹن کا اس سلسلہ میں بھی دوہرا رویہ ہے۔ اگر امریکہ دیگر ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کرے تو یہ کام نہ صرف یہ کہ امریکی حکام کی نظر میں مذموم نہیں ہے بلکہ چونکہ دنیا میں نام نہاد آزادی و جمہوریت کے نعرہ کے زیر سایہ انجام پاتا ہے تو ایک اچھا کام بھی شمار ہوتا ہے لیکن اگر کوئی دوسرا ملک امریکی انتخابات میں مداخلت کرے تو امریکہ والے اس کو ناقابل بخشش گناہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کے خلاف شدید اقدام بھی کرتے ہیں کیونکہ یہ اقدام امریکہ کی قومی سلامتی کے خطرہ میں پڑجانے کا سبب بنتا ہے۔ امریکہ کے 2016 کے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کا الزام بھی اس کا واضح مصداق ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ روس نے امریکی انتخابات میں مداخلت کی ہے اور اس نے ٹرمپ کے منتخب ہونے میں مدد کی ہے البتہ ٹرمپ نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ ادھر روس نے بھی کہا ہے کہ اس نے امریکی انتخابات میں کوئی مداخلت نہیں کی ہے۔ امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کیس کے خصوصی تفتیشی افسر رابرٹ مولرنے دو سال کے بعد اپنی رپورٹ مکمل کی اور اسے وزارت قانون کو پیش کیا۔ رابرٹ مولر نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ٹرمپ اور روس کے درمیان کسی سازباز کے ثبوت نہیں مل سکے ہیں۔
دوسری طرف انتخابات سمیت دیگر ممالک کے داخلی امور میں امریکی مداخلت کے بہت سے معاملات موجود ہیں۔ خاص طور سے روس کے بارے میں، اس کے باوجود کہ امریکی حکام نے ماسکو پر امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کا الزام لگایا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے حالیہ برسوں میں، خاص طور سے سنہ 2000ع میں ولادیمیر پوتین کے صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد سے وسیع پروپیگنڈے اور نام نہاد جمہوریت کا دفاع کرنے والی عوامی تنظیموں کے ذریعہ بارہا روسی انتخابات میں مداخلت کی ہے چاہے وہ پارلیمانی انتخابات ہوں یا صدارتی انتخابات۔ امریکہ کا ہدف روس کے انتظامی اور عدالتی ڈھانچے میں امریکہ اور مغرب نواز عناصر کو اہم عہدوں تک پہنچانا ہے اور ساتھ ساتھ عدم استحکام پیدا کرنا اور ولادیمیر پوتین کے خلاف احتجاج کو وسعت دینا بھی رہا ہے۔ اس سلسلہ میں تازہ معاملہ یہ ہے کہ رواں سال اگست میں ہونے والے روس کے مقامی انتخابات کے سلسلہ میں ماسکو میں امریکی سفارت خانہ نے حکومت مخالف احتجاج کو کھلم کھلا طور پر ہوا دی۔ روسی پارلیمنٹ میں روسی حاکمیت کے تحفظ کی کمیٹی کے ایک رکن آندرے کلی موف نے کہا ہے کہ ماسکو میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہونے والے مظاہروں میں بیرونی مداخلت کی علامات نظر آئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ماسکو میں ہونے والے مقامی انتخابات کو لوگوں کو مشتعل کرنے کے ایک حربے میں تبدیل کرنے اور انتخابات کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔“
ایران اور وینیزویلا جیسے امریکی تسلط مخالف دیگر ممالک کے بارے میں بھی کچھ اسی طرح کا کام کیا گیا تھا اور امریکہ نے اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کے لئے ان ممالک کے انتخابات میں بارہا مداخلت کی ہے۔