افغانستان کی صورتحال کے بحرانی ہونے کے بارے میں حامد کرزئی کا انتباہ
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے اس ملک کی صورتحال کے سنگین ہونے کی بابت خبردار کیا ہے-
حامد کرزئی نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ افغانستان کی عام صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے اور صدر اشرف غنی کو چاہئے کہ وہ دقت کے ساتھ اس صورتحال کو اپنے کنٹرول میں رکھیں-
انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ افغان عوام امن کے خواہاں ہیں کہا کہ اگرچہ امن وسلامتی کا قیام افغان عوام کا بنیادی مطالبہ ہے تاہم افغان عوام اپنے جمہوری نظام اور 18 سالہ کامیابیوں اور کارناموں کو ہاتھ سے کھودینے کی قیمت پر، یہ امن نہیں چاہتے-
کرزئی نے اسی طرح افغانستان کے صدارتی انتخابات کے نتائج کے اعلان میں تاخیر کی جانب اشارہ کرتےہوئے کہا کہ نتائج کا اعلان، انتخابات کے انعقاد کے دوسرے دن ہی ہوجانا چاہئے تھا-
گذشتہ روز کے کرزئی کے بیانات مختلف پہلوؤں کے حامل ہیں- لیکن اس سابق صدر کے اظہار خیال میں اہم نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے افغانستان کے، بحران کی جانب بڑھنے کے بارے میں خبردار کیا ہے- افغانستان کے عوام، حکومت اور غیرملکی فوجیوں کی کارکردگیوں سے مایوسی کا احساس کر رہے ہیں اور اس ملک کے نوجوان مہاجرت کو اپنے ملک میں رہنے پر ترجیح دے رہے ہیں- کرزئی نے انتخابات میں لوگوں کی کم تعداد میں شرکت اور انتخابات کے نتائج میں بے یقینی کی صورتحال کو بھی بحران کی نشانیوں اور علامات میں سے قرار دیا-
البتہ کرزئی کےانتباہات کا ایک حصہ، امن مذاکرات عمل سے متعلق امریکہ ، افغانستان کی موجودہ حکومت اور طالبان سے متعلق تھا - جیسا کہ کرزئی نے کہا ہے کہ افغان عوام کی کامیابیوں اور کارناموں، منجملہ جمہوری نظام کو امن کے بہانے نابود نہیں ہونے دینا چاہئے- انہوں نے یہ بیان ایسے میں دیا ہے کہ طالبان گروہ مذاکرات کے ایک فریق کی حیثیت سے اسلامی امارت تشکیل دینے کی بات کر رہا ہے تو دوسری جانب امریکہ نے مذاکرات کے دوسرے فریق کی حیثیت سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ افغان عوام کی خواہشات اور مطالبات پر مصر رہنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور ہر طریقے سے حتی افغانستان میں بدامنی پھیلنے کی صورت میں بھی وہ اس ملک میں اپنے اخراجات میں کمی لانا چاہتا ہے-
کابل حکومت کے توسط سے حال ہی میں حقانی گروپ اور طالبان گروہ کے تین افراد کو رہا کئے جانے کا اقدام بھی، عوام میں سخت تشویش کا باعث بنا ہے اور بہت سے افراد کو یہ سوال درپیش ہے کہ وہ افراد کہ جن کے سیاہ کارنامے افغان عوام کی نگاہوں کے سامنے ہیں اور اس سے پہلے وہ سخت سزاؤں کے مستحق بھی قرار پاچکے ہیں، پھر آخر انہیں کیوں آسانی سے رہا کردیا گیا؟
انتہا پسند گروہوں کے ان تین اہم عناصر کی رہائی ایسی حالت میں انجام پائی ہے کہ طالبان نے اس کے باوجود بھی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کو قبول نہیں کیا ہے اور نہ ہی جنگ بندی کا اعلان کیا ہے- اس کے علاوہ ، حکومت نے یہ قدم ایسے حالات میں اٹھایا ہے کہ داعش دہشت گرد گروہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں حملے کر رہا ہے اور بعض رپورٹوں کے مطابق اس گروہ نے مختلف علاقوں میں اپنی جڑیں مضبوط کرتے ہوئے افغانستان میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا دائرہ وسیع کردیا ہے-
امریکہ کے جریدے فارن پالیسی نے، افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک مضمون میں لکھا ہے: بی بی سی چینل کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2018 سے جنوری 2019 کے دوران، داعش نے عراق اور شام کے علاوہ دنیا کے ہر ملک سے زیادہ افغانستان میں حملے کئے ہیں- داعش کے زیادہ تر حملے منجملہ ایک شادی ہال پر اس کا وحشتناک حملہ، کہ جس میں ساٹھ سے زیادہ جاں بحق ہوگئے اس حملے میں افغان شیعوں کو نشانہ بنایا گیا- اسی طرح اس گروہ نے 2017 میں کابل میں افغانستان کے سب سے بڑے فوجی اسپتال اور 2018 میں کابل میں ہی ووٹروں کے ناموں کے اندراج کے مرکز پر حملہ کرکے سرکاری مقامات کو نشانہ بنایا تھا-
ایسی صورتحال میں حقیقت یہ ہے کہ دہشت پھیلانے والے عناصر کی جیل سے رہائی کا نتیجہ، انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کو تقویت پہنچانے کے سوا اور کچھ نہیں نکلے گا-
نہ صرف سیکورٹی کی صورتحال، بلکہ سیاسی صورتحال بھی، جو کرزئی کے بقول کابل میں نامناسب اور بحرانی حالت اختیار کر گئی ہے- انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بارے میں نامزد امیدواروں کے درمیان اختلافات بدستور قائم ہیں اور قانون بھی اپنا اختیار کھوچکا ہے اور آزاد الیکشن کمیشن پر بھی ان کی اور ان کی طرفداری کا الزام لگایا جا رہا ہے اور یہ ساری صورتحال معنی خیز البتہ خطرناک ہے-
اسی بنا پر افغانستان کے صدر نے اپنے ملک کی صورتحال کے بحرانی ہونے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جلد از جلد اس سلسلے میں اقدامات عمل میں لائے-