نیٹو کے مسئلے پر فرانس اور ترکی کے درمیان سیاسی کشیدگی میں اضافہ
فرانس کے صدر امانوئل میکرون کا نیٹو کی نااہلی کے بارے میں حالیہ ریمارکس اور اس فوجی تنظیم کی صورت حال کا دماغی موت سے موازنہ کرنا اس بات کا باعث بنا ہے کہ ترکی سمیت نیٹو کے بعض رکن ملکوں نے میکرون کو ہدف تنقید بنایا ہے، اور یہ امر پیرس اور انقرہ کے درمیان سیاسی کشیدگی کا باعث بنا ہے -
فرانس اور ترکی کے درمیان کشیدگی ایک ایسے موقع پر بڑھ گئی ہے کہ جب آئندہ ہفتے، برطانیہ میں نیٹو کا سربراہی اجلاس ہونے جا رہا ہے- میکرون نے اکتوبر 2019 میں نیٹو کے ساتھ امریکی عہد وپیمان جاری رہنے اور اس ملک پر یورپ کے بھروسہ کرنے کے امکان کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ نیٹو کو برین ہیمبریج ہوگیا ہے- فرانس کے صدر نے شمالی شام میں ترکی کی فوجی کاروائی کا ذکر کرتے ہوئےکہا کہ امریکہ اور نیٹو کے دیگر رکن ملکوں کے درمیان اسٹریٹیجک فیصلوں کے بارے میں کسی طرح کی بھی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی- میکرون کے بقول، ہم نیٹو کے ایک رکن ملک یعنی ترکی کی جانب سے ایک ایسے علاقے پر کسی ہم آہنگی کے بغیر جارحانہ یلغار کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ جہاں ہمارے مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ میکرون کا یہ منفی موقف، واشنگٹن اور انقرہ کے غم و غصے کا سبب بنا ہے- خاص طور پر ایسے میں کہ جب بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہےکہ کرد ملیشیا سے مقابلے اور سیف زون قائم کرنے کے لئے شمالی شام پر ترکی کا حملہ، امریکی صدر ٹرمپ کی ایما پر انجام پایا ہے- فرانسیسی حکام کا ماننا ہے کہ نیٹو کے اراکین کو یہ توقع ہے کہ ترکی ، شام میں اپنی فوج کی تعیناتی کے اہداف کے بارے میں واضح جواب دے -
اگرچہ ترکی نے میکرون کے بیان پر فوری ردعمل ظاہر کیا ہے لیکن اس وقت انقرہ نے اس سلسلے میں سخت موقف اختیار کیا ہے- اردوغان نے جمعہ 29 نومبر کو ایک تقریر میں نیٹو کے تعلق سے میکرون کے اظہار خیال کو، غلط اور سطحی فہم و ادراک کا نتیجہ قرار دیا- انہوں نے میکرون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم خود کو دیکھو کہ کہیں تمہیں تو برین ہیمبریج نہیں ہوگیا ہے- اردوغان کے غیر معمولی موقف پر فرانس نے اپنے غصے کا اظہار کیا ہے- ایک فرانسیسی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ترکی کے صدر کی یاوہ گوئی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ اظہار خیال نہیں بلکہ توہین ہے- ہمیں توقع ہےکہ اردوغان اس بارے میں وضاحت دیں گے- فرانس کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ ترکی کے سفیر" اسماعیل حاکی موسی " کو جمعے کے روز ترک حکام کے ناقابل قبول بیانات کے بارے میں وضاحت کے لئے طلب کیا گیا - یہ ایسی حالت میں ہے کہ اردوغان کے بیان پر امریکہ نے مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے- ایک امریکی عہدیدار نے جمعے کو کہا کہ میکرون بدستور اس کوشش میں ہیں کہ نیٹو کے تعلق سے ان کی جو آرزو ہے اسے حاصل کرسکیں-
اس طرح سے ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ لندن میں نیٹو کا سربراہی اجلاس کہ جو نیٹو کے اراکین کے درمیان اتحاد کی جلوہ نمائی کے لئے منعقد ہو رہا ہے، پیرس اور انقرہ کے درمیان کشیدگی پھیلنے کے سبب ، ممکن ہے مشکلات اور رکن ملکوں کے درمیان اختلاف رائے سے دوچار ہوجائے- البتہ واشنگٹن کی کوشش ہے کہ فرانس اور ترکی کے درمیان کشیدگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، نیٹو کے سلسلے میں اپنے اہداف کو زیادہ سے زیادہ عملی جامہ پہنائے- خاص طور پر ایسے میں کہ جب ٹرمپ ، یورپ کے خودمختار دفاعی ڈھانچوں اور اداروں کے قیام اور ان کی تقویت کے بارے میں میکرون سے نالاں ہیں، اور ان کے ان اقدامات پر بارہا تنقید بھی کرچکے ہیں - ساتھ ہی شمالی شام کے بارے میں امریکہ اور ترکی کے اقدامات سے، کہ جو نیٹو کے دیگر رکن ملکوں کے صلاح و مشورے کے بغیر انجام پائے ہیں، اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ نیٹو بتدریج اپنی اصلی کارکردگی یعنی اپنے رکن ملکوں کے درمیان دفاعی اور فوجی ہم آہنگی پیدا کرنے اور اجتماعی دفاع کے اصول سے دور ہو رہاہے۔ البتہ جرمنی نے، نیٹو کے اہم اور کلیدی یورپی رکن کی حیثیت سے میکرون کے خلاف موقف اختیار کیا ہے اور یورپ کے دفاع کے لئے نیٹو کے تحفظ کی ضرورت پر تاکید کی ہے- جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے بدھ ستائیس نومبر کو اعلان کیا کہ نیٹو کے ادارے کو کہ جس پر میکرون نے شدید تنقید کی ہے، ہمیشہ سے زیادہ حفاظت کی ضرورت ہے، اور اس وقت نیٹو کا تحفظ ، سرد جنگ کے دور سے زیادہ ہمارے فائدے میں ہے-
اس وقت نہ صرف نیٹو کی کارکردگی اور اس کے فلسفہ وجودی کے بارے میں یورپی اور غیر یورپی ممبر ملکوں کے درمیان اختلاف کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس سلسلے میں نیٹو کے یورپی رکن ملکوں یعنی جرمنی اور فرانس کے درمیان بھی اختلافات میں اضافہ ہوا ہے-