Dec ۰۴, ۲۰۱۹ ۱۶:۱۸ Asia/Tehran
  • پچیس سالہ اسٹریٹجیک تعلقات کی دستاویزات کے دائرے میں تہران اور بیجنگ کے تعلقات میں توسیع

چینی فوج کے بین الاقوامی تعلقات کے ڈپٹی چیف ،کہ جو ایران اور چین کی مسلح افواج کے دوسرے مشترکہ فوجی اجلاس میں شرکت کے لئے ایک اعلی رتبہ وفد کے ہمراہ تہران کے دورے پر ہیں ، ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف کے ساتھ ملاقات میں ایران کے ساتھ فوجی تعلقات کے فروغ پر تاکید کی-

منگل کو ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری اور چینی فوج کے بین الاقوامی تعلقات کے ڈپٹی چیف  لیفٹیننٹ جنرل شائو یوئان مینگ  Shaoyuan Ming  کے درمیان ہونے والے اجلاس کے موضوعات میں ،  ایران اور چین کی مسلح افواج کے درمیان طویل المدت فوجی تعلقات اور بحیرۂ جنوبی چین  اور مغربی ایشیا میں مشترکہ خطرات سے مقابلہ شامل تھا-

اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف محمد باقری نے اس ملاقات میں ، اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ دونوں ملک، دائمی اور مستقل طور پر باہمی تعلقات کو فروغ دینے کا عزم رکھتے ہیں، ایران اور چین کے پچیس سالہ اسٹریٹیجک تعلقات کی دستاویز تیار کئے جانے کی خبر دیتے ہوئے کہا کہ دیگر ملکوں کی پالیسیاں اور مواقف، تہران اور بیجنگ کے تعلقات پر اثرانداز نہیں ہوں گے- 

اسلامی جمہوریہ ایران اور چین دو بڑے ایشیائی ملک کی حیثیت سے ، دیرینہ روابط اور  قدیم تہذیب و تمدن کے حامل ہونے کے ساتھ ہی، بہت سے شعبوں میں مشترکہ اہداف اور مفادات رکھتے ہیں-

اسی سلسلے میں خلیج فارس کی سلامتی پر چین  دو وجہ سے توجہ دے رہا ہے- 

پہلی وجہ : تیل کی برآمدات کو سلامتی فراہم کرنا اور علاقے میں آزاد تجارت اور جہاز رانی کی آمد و رفت کو پرامن بنانا ہے - اور دوسری وجہ مغربی ایشیا میں ایران کی جیو اسٹریٹیجک پوزیشن ہے اور یہ مسئلہ چین کے لئے اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے-

ایران کی جغرافیائی پوزیشن کچھ اس طرح سے ہے کہ ایران کے پندرہ ہمسایہ ممالک ہیں اور یہ ممالک شمال جنوب کوریڈور کے ذریعے ایک دوسرے سے ملتے ہیں-

 شمال جنوب کوریڈور کو ایشیا اور یورپ کے درمیان سامان رسد کی ترسیل کے حوالے سے اہم سمھجا جاتا ہے۔ یہ کوریڈور روائتی راستوں کے مقابلوں میں وقت اور فاصلے کے لحاظ سے چالیس فی صد کم  اور اخراجات کے لحاظ سے تیس فی صد سستا ہے۔ اس لئے چین کے نقطۂ نگاہ سے ایران کی پوزیشن اور اس کا کردار اہمیت کا حامل ہے-

یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایران کو توانائی کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا میں برتری حاصل ہے- واضح سی بات ہے کہ امریکہ کے توسط سے علاقے کو بدامنی سے دوچار کرنے کے اقدام سے ، چین اور ان ملکوں کے اقتصادی و سیاسی مفادات کو نقصان پہنچا ہے کہ جو علاقے اور دنیا میں امن وسلامتی کے خواہاں ہیں- درحقیقت وہ چیز جس نے اس سلسلے میں سلامتی کونسل کے ایک مستقل رکن کی حیثیت سے چین کی حساسیت کو دوچنداں کردیا ہے امریکہ کی یکطرفہ پالیسیاں اورایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد علاقے میں امریکی بحران کھڑا کرنے اور سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کے نتائج سے لاحق تشویش ہے-

چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے ظریف کے حالیہ دورے کےبارے میں کہا کہ چین ہر اس اقدام کی حمایت کرتا ہے، جو علاقے میں کشیدگی میں کمی اور بدامنی کی روک تھام کا باعث ہیں -

علاقے میں امریکہ کے بحران پیدا کرنے والے اقدامات پر ردعمل میں چین، سمندری اسٹریٹیجک علاقوں اور شعبوں میں اپنی موثر موجودگی کا عزم کئے ہوئے ہے اور علاقے کے بڑے ملک کی حیثیت سے ایران کے کردار کو بھی خاص اہمیت دیتا ہے- کیوں کہ ایران دھمیکوں اور خطرات کے مقابلے میں ضروری دفاعی طاقت کا حامل ہے اور ساتھ ہی، آزاد و خودمختار ملکوں کے تعاون سے، اجتماعی سلامتی کے تحفظ کے لئے علاقائی تعاون پر یقین رکھتا ہے- سیاسی مسائل کے ماہرین کے نقطۂ نگاہ سے علاقائی و بین الاقوامی مسائل کےبارے میں تہران اور بیجنگ کے ہم آہنگ نظریات کے پیش نظر یہ تعاون دونوں ملکوں کے لئے بہت زیادہ مثبت اور مفید نتائج کا حامل ہوسکتا ہے- سیاسی مسائل کے ماہر نیک بخش ، تہران اور بیجنگ کے دوطرفہ اسٹریٹیجک تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:  امریکی صدر ٹرمپ کے توسط سے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مالی اور اقتصادی تعاون منقطع کرنے کے مقصد سے دیگر ملکوں پر امریکی صدر ٹرمپ کے دباؤ کے باوجود، اس وقت ایران اور چین کے تعلقات تمام شعبوں میں ، مناسب سطح پر قائم ہیں-

فطری بات ہے کہ ایران اور چین کے درمیان تعلقات کا فروغ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان پچیس سالہ تعاون کی دستاویز کے تیار ہونے کے ساتھ ہی فوجی و سیکورٹی تعاون میں نئی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے- ایران اور چین کی مسلح افواج کے مشترکہ کمیشن کے اجلاس کا انعقاد اور ایران کے ساتھ سمندری فوجی مشقیں انجام پانے کی منصوبہ بندی بھی اسی تناظر میں قابل غور ہے- ایران اور چین کے اعلی سطح پر تعلقات اس امر کے غماز ہیں کہ بعض افراد کے تصور کے برخلاف ، تہران اور بیجنگ کے تعلقات میں نہ صرف کمی نہیں آئی ہے کہ بلکہ اس وقت ہم ان دونوں ملکوں کے اسٹریٹیجک تعلقات کی تقویت میں نمایاں اضافے کا مشاہدہ کر رہے ہیں-

ٹیگس